پوری کتاب کا مطالعہ مشکل ہوتا، اس لئے میں نے یہ دستوربنایا کہ ہر روز میں دوسرے دن کی کتاب لے کر مدرسہ کے باہر کہیں جاکر چھپ جاتا،اور مسلسل پڑھتا رہتا،جو کچھ بچ جاتا را ت میں اسے پورا کرلیاکرتا۔
امتحان سے پہلے ایک لطیفہ
امتحان کاپہلادن کل ہے،آج میں نے فجر کے بعد کتاب لی،اورطلبہ کی نگاہوں سے بچتاہوا سمہودی چلاگیا،صبح کو اس طر ف کوئی طالب علم نہ جاتاتھا ،میں عیدگاہ میں ایک درخت کے نیچے رومال بچھاکربیٹھ گیا اورنورالانوار کے مطالعہ میں منہمک ہوگیا ۔گرمیوں کا موسم تھا ایک بجے تک کتاب میں منہمک رہا ،نہ کوئی ناشتہ نہ پانی ،ایک بجے تک بھوک چمک اٹھی، یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان وپاکستان کی جنگ گزرچکی تھی مگر نتیجے میں گرانی ،قحط اورپریشانی چھوڑگئی تھی، سرکاری غلے کی دکانوں پر گیہوں بہت کم ملتا اس کی جگہ باجرے کی فراوانی تھی،مدرسے میں باجرے کی روٹی بکثرت پکاکرتی تھی یہ سیاہ رنگ کی روٹی ہوتی اوراتنی کمزوراور بودی کہ جہاں سے پکڑ ئیے وہیں سے ٹوٹ جاتی، اس وقت اسی پر گزاراہورہاتھا، دال بھی مخصوص قسم کی ہوتی ،نہ جانے کن کن دالوں کاملغوبہ! وہ بھی کالی ہوتی مجھے ارہر اورچنے کی دال کے علاوہ کوئی دال پسند نہ تھی ،اس وقت مدرسے میں دوپہر کی چھٹی ساڑھے گیارہ بجے ہوتی تھی ،اس کے بعد فوراً کھاناملتاتھا ،ہم پانچ چھ ساتھی ایک ساتھ کھاناکھاتے تھے، میں سوچتا ہواآرہاتھا کہ میرے ساتھی کھانا کھاکرقیلولہ کررہے ہوں گے، میراحصہ چوکی پر موجود ہوگا ، میں آیا تووہی رنگ تھا جو میں سوچتاہواآرہاتھا، چوکی کے پاس پہونچاتو باجرے کی روٹیوں کے سیاہی مائل ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے اورکالی پتیلی میں کالی دال اپنا جلوہ دکھارہی تھی میں دھک سے ہوگیا، میری بھوک بلبلاکررہ گئی میں ادھر ادھر دیکھنے لگا ، میرے کئی ساتھی جاگ رہے تھے،انھوں نے آنکھیں کھول دیں ، میں نے پوچھا آج گوشت نہیں ہے کہنے لگے آج گوشت کا دن نہیں ،جوہے کھالومیں صبر کرکے لقمے اٹھانے لگا، کھاتا کیا یوں کہئے زہر مارکرلیا،آج کی بے بسی پر میری آنکھوں میں آنسو آگئے لیکن بحمداللہ نہ بے صبری کی نہ دل