طلبہ صاحب استعداد نہیں ہیں ، ورنہ سفارش کی ضرورت کیا تھی، ان حضرات نے غالباً سرسری امتحان لے کر سب کو ۳۵؍۳۵ ؍نمبر بخش دئے، یہ ان حضرات نے رعایت فرمائی تھی ، مجھے سن کر شدید دھکا لگا، میں نے جی میں کہا یہ تو رشوت ہے ، کیا یہاں بھی رشوت کا گزر ہے، میں بڑبڑارہاتھا کہ ایک ساتھی نے میرا ہاتھ دبایا کہ میاں کام چلانے کو سب کچھ کرنا پڑتا ہے، میں نے سوچا کہ میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا، بات یہیں ختم ہوگئی۔
رات دعا کرتے کٹ گئی ، صبح ہوتے ہی میں ابوالعاص کے ساتھ دفتر تعلیمات میں پہونچ گیا، معلوم ہواکہ مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی کی خدمت میں حاضری دینی ہے میرا ساتھی سہم گیا ، اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا ، کہنے لگا مولانا وحید الزماں صاحب کسی کو پاس نہیں کرتے، میاں ٹھہرو! تمہارا امتحان ان کے پاس نہیں ہونا ہے، تم دارالحدیث چلو، وہاں امتحانات ہورہے ہیں ، اس کا منظر دیکھو، لیکن یاد رکھو، تمہارا نام پکارا جائے تو ہرگز لبیک نہ کہنا، میں یہاں کوشش کرتا ہوں کہ تمہارا امتحان وہاں سے ہٹ جائے ، میں نیا طالب علم ، یہ پرانا آدمی ، میں اس سے حیل وحجت کیا کرتا، خاموش رہ گیا، لیکن دل میں ٹھان لیا تھا کہ اگر میری جیب میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی گئی ، تو میں ہرگز ایسا کرنے نہ دوں گا، میں یہ فیصلہ کرکے دارالحدیث فوقانی کی طرف چلا گیا، یہاں جو نقشہ دیکھا،وہ خاصا مرعوب کن تھا۔
امتحان داخلہ کا منظر
دارالحدیث کے وسیع وعریض ہال میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ڈسک رکھے ہوئے ہیں ، اور ان کے پاس ایک ایک تپائی، ان تپائیوں پر کتابوں کے ڈھیر لگے ہوئے ! اور ہر ڈسک کے پاس ایک ایک استاذ تشریف فرما ہیں ، سب سے پہلے جن پر نگاہ ٹھہری ، یہ پینتالیس اور پچاس کے پیٹے میں تھے ، چھریرا بدن،ہلکا گندمی رنگ،چہرہ پر گوشت کم، آنکھیں ذرا چھوٹی، چہرے پر چیچک کے بہت ہلکے نشان ، ناک باریک قدرے خمدار، داڑھی کے بال چھدرے، رخساروں پر کم ، ٹھوڑی پر کسی قدر زیادہ، شیروانی زیب تن، نگاہیں جھکی ہوئی ، چہرے پر ذہانت اور حوصلہ مندی کے آثار نمایاں ، نشاط اور چستی پورے وجود پر چھائی