بعدنمازعصر کی مشغولیات
یوں توسبھی اساتذہ محسن ہوتے ہیں لیکن بعض اساتذہ سے استفادہ زیادہ ہوتاہے اورمناسبت زیادہ ہوتی ہے میرے اساتذہ میں حضرت مولانا عبدالستار صاحب علیہ الرحمہ امام جامع مسجد بھیرہ کااحسان میرے اوپر ابتدائی تعلیم میں سب سے زیادہ ہے، میں ان کے گھر ان کی اولاد کی طرح رہتا،مولانا کسی مدرسہ میں مدرس نہ تھے ہاں مدرسہ کے ناظم ضرور تھے مگر اعزازی،بغیر کسی تنخواہ کے،اور معاش کا کام وہی کپڑے کی بنائی تھا، مولانا کپڑابنتے رہتے، اسی میں اپنے کام کا حرج کرکے مجھے پڑھاتے اس طرح ان سے قربت بہت ہوئی تکمیلِ تعلیم کے دوران بھی ان کے ساتھ یہ خصوصی تعلق باقی رہا، دیوبندکے ہنگامے کاانھیں افسوس توبہت ہوا،مگر کبھی مجھ سے ناراض نہ ہوئے، نہ ڈانٹا،نہ اپنے یہاں آنے سے منع کیا، میری حاضری ان کے یہاں اوران کی شفقت میرے اوپر پہلے ہی کی طرح باقی رہی، اب جو گھر رہنا ہواتوروزانہ عصر کی نمازکے بعد ان کی خدمت میں حاضرہوتا، اوریہ سلسلہ ان کے آخری لمحات حیات تک باقی رہا، (مولاناکی وفات:۵؍جمادی الاخریٰ ۱۴۲۵ھ ۲۳؍جولائی ۲۰۰۴ء) میں ہوئی، ان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے،مولانا کے فرزنداکبر مولاناعزیزالرحمن صاحب کہ وہ بھی میرے استاذ ہیں ان کی وجہ سے یہ سلسلہ باقی ہے۔
خانہ آبادی
میں جب گھر آکر رہنے لگا، اور حفظ قرآن کے ساتھ گھریلو مشاغل میں ضم ہوا،تو والدصاحب کو خیال ہوا کہ اب خانہ آبادی ہوجانی چاہئے۔ میرا نکاح اس وقت ہوگیا تھا ، جب میں عمر کی دسویں منزل میں تھا ، اس وقت ہمارے معاشرے میں نابالغی کے نکاح کا بکثرت رواج تھا ، غالباً ۱۹۶۰ء یا ۱۹۶۱ء رہا ہوگا ، گاؤں ہی میں ایک جگہ رشتہ طے ہوا ، اور مسجد میں مجھے بیٹھا کر کسی نماز کے بعد دادا مرحوم نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور ایجاب وقبول کرادیا ۔ میں قدرے باشعور تھا ،مگر نابالغ تھا ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد رخصتی کی سلسلہ جنبانی ہونے