کے مسائل کو الجھایابہت ہے کہیں متن کی عبارت آنے سے پہلے ہی اس پر گفتگو شروع کردیتے کہیں بے محل لفظی بحث چھیڑ دیتے ہیں کہیں کسی ربط کے بغیر کسی شارح کی تردیدشروع کردیتے ہیں ،اس میں طلبہ توطلبہ ہیں ،اساتذہ بھی غچاکھاجاتے ہیں ،مجھے بہت تجر بہ ہواہے کہ اس کے سمجھنے میں طلبہ اورسمجھانے میں اساتذہ اکثرچکراتے رہتے ہیں اس طالب علم کو میری یہ بات بڑی معلوم ہورہی تھی اس وقت تو کچھ نہیں بولا تھوڑی دیر کے بعد وہ مختصرالمعانی میرے پاس لے کر آیا کہ مجھے آپ سمجھائیے، میں نے کہا کہ کل جو تم نے سبق پڑھا ہے اسے نکالو،میں اسے سمجھاتاہوں پھر اندازہ کرنا اس نے اپنا سبق پیش کیا،میں نے اپنے انداز میں اسے پڑھایا، وہ حیرت زدہ ہوگیااس نے اقرارکیاکہ میں نے اس طرح نہیں سمجھاتھا، پھر اس نے متعدد اسباق مجھ سے پڑھے، اس کے شوق کاعالم یہ تھاکہ میں کبھی مدرسہ شاہی جاتاتووہ کتاب کھول کر میرے سامنے بیٹھ جاتا،میں جب ٹانڈہ بادلی جارہاتھا توبس اڈے پر وہ کتاب لے کر آگیا اورمیں نے وہاں اسے سبق پڑھایاتھا۔
(۷)مولوی محمداجمل صاحب
امروہہ کی مدت تعلیم میں جن چیزوں نے مجھے متأثرکیااورجن سے میں نے تعمیر سیرت کاسبق حاصل کیا ا ن میں ایک نوجوان عالم مولوی اجمل صاحب بھی ہیں ، میں جس وقت امروہہ پہونچاتھا سردیوں کازمانہ تھا فجر کے وقت کبھی سویرے آنکھ کھل جاتی تولاؤڈ اسپیکر سے تقریرکی آوازآتی ،غور سے سننے پرباتیں بھی سمجھ میں آتیں ، یہ تقریر جماعت کے وقت سے دس منٹ پہلے بندہوجاتی،کبھی کبھی یہ آواز سننے کومل جاتی ورنہ عموماً آنکھ اس وقت کھلتی جب آواز بندہوچکی ہوتی ،بقرعید کے بعدجب کہ نمازکااہتمام بہت بڑھ گیاتھا روزانہ یہ آواز کانوں میں آنے لگی میں نے اپنے بعض ساتھیوں سے اس کے متعلق دریافت کیا تومعلوم ہوا کہ محلہ نل میں ایک امام صاحب ہیں وہ فجر کی اذان خود ہی کہتے ہیں ، اوراذان کے بعد تقریر کرتے ہیں ،پورامحلہ گوش برآوازہوتاہے ان کی یہ تقریر اصلاحی ہوتی ہے، اورہرروز ہوتی ہے اس سے محلہ والوں کی کافی اصلاح ہوتی ہے کچھ دنوں تک تو ان سے کچھ ربط ضبط نہ