کہ گرم کپڑوں کا انتظام کرتا ، غریبانہ زندگی بسر ہوتی رہی ،وہ سا ل بخیریت گزرگیا۔
ضلع دُمکا(سنتھال پرگنہ میں )
میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ ضلع دُمکا ( سنتھال پرگنہ ) بہا ر کے تین سنجیدہ اور معمر طلبہ بنارس میں میرے لئے وجہ کشش بنے تھے ، انھوں نے اصرار کیاتھا کہ میں رمضان میں ان کے دیار میں چلوں ، اس وقت میسورکا سفر مانع بناتھا، اور میں نہ جاسکاتھا اورنہ وعدہ کرسکا تھا ۔ اب جب میں مدرسہ دینیہ میں یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ آگیا ، اور میسور کا تعلق ختم ہوگیا ، تو یہ طلبہ بھی ششماہی امتحان کے بعد بنارس سے رخصت ہوکر میرے پاس مدرسہ دینیہ غازی پور میں آگئے ۔ ان کے ساتھ مدھوبنی کے مولوی حبیب اﷲ بھی آگئے ، اب میں پوری دلجمعی اور تندہی کے ساتھ ان طلبہ پر محنت کرنے لگ گیا ، اور ان کا تعلق مجھ سے بڑھتا چلا گیا ۔ جب شعبان قریب آیا اور چھٹی کا وقت آنے لگا تو ان طلبہ نے مجھ سے پچھلے سال کی بات کا اعادہ کیا ، وہ بار بار اس کا تذکرہ چھیڑتے رہے کہ اگر آپ چلتے تو ہمارے یہاں کام ہوتا ۔ہمارے یہاں کے گھریلو ماحول کے اعتبار سے رمضان شریف میں گھر سے باہر رہنا ایک مشکل کام تھا اور معیوب بھی ! مگر میں دار العلوم دیوبند کی تیاری کے بہانے ایک سال گھر رہنے کا ناغہ کرچکا تھا ، اور دوسرے سال اسٹرائیک کے ہنگامے کے بعد رمضان شریف دیوبند میں گزارچکاتھا ، اس لئے میرے لئے کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوا ۔ میں نے وعدہ کرنے سے پہلے چاہا کہ والد صاحب سے اجازت لے لوں ، چنانچہ گھر جاکر میں والد صاحب علیہ الرحمہ کی خدمت میں یہ بات رکھی ، پہلے انھیں تامل ہوا ، مگر میں ان سے بچپن سے بے تکلف تھا ، دینی وایمانی ضرورت پر ایک پُرجوش تقریر کرڈالی ، وہ راضی ہوگئے ، میں نے طلبہ کو خوشخبری سنائی کہ ان شاء اﷲ حاضری دوں گا۔
۱۱؍ شعبان ۱۳۹۳ھ کو مدرسہ میں تعطیل ہوئی۔ طلبہ گھروں کو رخصت ہوئے ، میں نے اپنے گھروالوں کو وطن پہونچایا ، شب برأت کو گھر رہا ، ۱۵؍شعبا ن کو بنارس کے لئے نکلا ،