میں نے ان کی ہمت پر آفریں کہی اور بہت شاباشی دی ، ان کا حوصلہ بڑھایا ، اس وقت ہم میں سے کوئی سوچ نہیں سکتاتھا کہ عزیزالرحمن جیسے لاابالی اور بے ہنگم طالب علم سے علم اور دین کی کوئی خدمت بن پڑے گی ، زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ بڑے شاعر ہوجائیں گے ، لیکن اس کے برعکس یہ بہترین مدرس اور معتبر مفتی ہوئے ، بمبئی میں یہ فتویٰ کے مدار ہیں ، اور خصوصیت کے ساتھ سراجی کے موضوع پر تو انھیں وہ کمال حاصل ہوا کہ وراثت کے بڑے سے بڑے حساب کو یہ منٹوں میں زبانی طور پر حل کرلیتے ہیں ،سراجی تو انھیں نوکِ زبان ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی قلبی خوشی اور دعاؤں کا اثر ہے۔
(۵)
غالباً سہ ماہی امتحان گزرچکاتھا ، دارا لعلوم کے احاطہ میں آوازہ گونجا کہ اخبار الجمعیۃ کے جمعہ ایڈیشن کے ایڈیٹر وحید الدین خاں فلاں دن دار العلوم دیوبند تشریف لارہے ہیں ، میں مبارک پور کی طالب علمی کے عہد میں جمعہ ایڈیشن کا ذکر کرچکا ہوں ، اور اس سے مجھے کتنی دلچسپی اور کتنا شغف تھا ، لکھ چکا ہوں ۔
وحید الدین خاں ،ضلع اعظم گڈھ کے رہنے والے ، جماعت اسلامی کے بہترین اہل قلم میں تھے ،ا ن کی تحریر کا ایک اُسلوب اور آہنگ ہے ، پڑھنے والا ڈوب جاتا ہے ، اور نکلتا ہے تو تاثر میں ڈوبا رہتا ہے ، کسی بھی مضمون کا آغاز وہ چونکا دینے کے انداز میں کرتے ہیں ۔ زندگی کے روز مرہ چھوٹے چھوٹے واقعات سے بڑے بڑے نتائج نکالنے کا انھیں ملکہ ہے ، خاں صاحب ابتداء ًجماعت اسلامی کے اہم ارکان میں تھے ، مگر بعد میں جب اس کے بہت اہم اہم ستون جماعت اسلامی سے نکل کر بکھرنے لگے تو وحید الدین خاں کو بھی مولانا مودودی سے اختلاف ہوا، اور وہ بھی اس حلقہ سے باہر آگئے۔
غالباً ۱۹۶۶ء میں جمعیۃ علماء ہند کے اس وقت کے ناظم عمومی حضرت مولانا سیّد اسعد مدنی علیہ الرحمہ انھیں اخبار الجمعیۃ کے ادارہ میں لے آئے ، انھوں نے الجمعیۃ کا جمعہ ایڈیشن بڑی آب وتاب سے نکالا۔ اس وقت جمعیۃ علماء کے پلیٹ فارم سے یہ بالکل نئے انداز کی