بس یونہی اچانک ایک دن وہ آیا کہ میاں الطاف نے اذنِ رحیل سنادیا، آج ۲۵؍ رمضان ہے ، اب گھر چلیں گے، گھروالوں کے ساتھ مل کر عید کی تیاری کریں گے، میں بھی اس کے لئے تیار تھا ، غالباً جمعرات کا دن تھا ، ہم دونوں ایک دوسرے سے ۷؍ شوال کو ملنے کا معاہدہ کرکے اپنے اپنے گھر کو روانہ ہوگئے۔
(۴)
میں ۲۵؍ رمضان کو مدرسہ سے چند کتابیں لئے ہوئے گھر پہونچا، آخر گھر پر کیا کرتا، میرا نکما پن مجھے گھر میں بھی بدنام کئے ہوئے تھا ، گھر رہ کر انھیں کتابوں میں لگے رہنے کا منصوبہ تھا ، یہ میری عمر کا اٹھارہواں سال تھا ، مزاج وطبیعت کادامن اگرچہ ابھی طفولیت کی شوخیوں سے بندھاہواتھا ، تاہم دیندار گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں ، دینی مدرسہ میں تعلیم حاصل کررہاتھا ، علماء کی صحبت سے فطری مناسبت تھی ، دینی کتابوں کاذوق تھا ، سیرت کے مطالعہ کا شائق تھا ، طبیعت بھی فطری طور پر دینداری کی طرف مائل تھی ، گوکہ اعمال فاسقہ میں مبتلا تھا ، تاہم دینداری کاجوش تھا ، گھر آیاتو معلوم ہوا کہ سات مسجدوں (اس وقت سات مسجدیں تھیں ،اب دس بارہ مسجدیں ہیں ) کایہ بڑا گاؤں ، خدا کے حضور اعتکاف کرنے والوں سے یکسر خالی ہے، گاؤں کے کسی فرد کو فرصت نہ ہوئی کہ خداوند تعالیٰ کے آستانہ پر دس دن کے لئے دھونی رما کر بیٹھتا۔ رسول اکرم ا کی اس سنت گرامی کو میرے وطن کے باشندوں نے مردہ کردیا، اس سے طبیعت بہت متاثر ہوئی، اور انسانی فطرت ہے کہ جب کوئی تاثر بے چینی اور تڑپ پیدا کرتا ہے ، تو اس کے اظہار کا اسے راستہ ملنا چاہئے ، میری طبیعت میں ایک ہیجان ساپیداہوا، اور دوسرے دن نمازِ جمعہ کے بعد میں نے خود اپنی تقریر کااعلان کردیا، اور تقریر کرنے کھڑا ہوگیا، اس سے پہلے میں نے متعدد تقریریں کی تھیں ، کافیہ پڑھنے کے دورسے ، مجھے تقریر وخطابت کاایک گونہ ملکہ ہوگیا تھا، لیکن اب تک جو تقریریں ہوئی تھیں ، اس تاثر کے ساتھ تھیں کہ ایک نوآموز لوگوں کے سامنے اپنی مشق وتمرین کا نمونہ پیش کررہا ہے، اور لوگوں کے تیور ، ان کی زیر لب مسکراہٹ، ان کی پیشانی کی سلوٹوں میں اس کا نتیجہ