پرچے تھے ، وہ بھی متفرق! ‘‘
پہلے آپ مولانا حکیم منیرالدین صاحب مئوی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے ، اس کے بعد اصلاحی تعلق جانشین مصلح الامت حضرت مولانا قاری محمد مبین صاحب سے رہا، اخیر میں یہ تعلق سلسلۂ قادریہ سندھ کے نامور شیخ حضرت مولانا حماداﷲ صاحب ہالیجوی( خلیفہ حضرت مولانا تاج محمود امروٹی) کے خلیفہ حضرت مولانا عبد الواحد صاحب دامت برکاتہم ( تلمیذ رشید حضرت مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ) سے قائم ہوا۔ اور انھیں کی طرف سے مولانا کو اجازت وخلافت ملی۔ یہ موضوع بھی تفصیل طلب ہے۔
شعروادب سے لگاؤ:
مطالعہ کا ذوق تو قدرت کی طرف سے حضرت مولانا کو غیر معمولی فیاضی سے عطا ہوا تھا، اسی کے ساتھ ساتھ شعروادب سے بھی گہرا لگاؤتھا، سخن فہمی وسخن سنجی کا ملکہ تو بدرجۂ کمال آپ کو حاصل تھا، کبھی کبھار شعر بھی کہتے تھے، خود کہتے تھے کہ میری طبیعت موزوں نہیں ہے، آپ کے استاذ حضرت مولانا محمد مسلم صاحبؒ کی وفات کا آپ پر بہت گہرااثرہوا، مہینوں آپ کی طبیعت اس سے متاثر رہی، اور ایک بے کیفی سی آپ پر طاری رہتی تھی، آپ لکھتے ہیں
میں شاعر نہیں ہوں ۔ اور نہ کبھی کوئی شعر پورا کہہ پاتا ، مگر آج کی بے کیفی شعر میں ڈھلنے لگی تو ڈھلتی چلی گئی ۔ آرزوؔ لکھنوی نے کیا اچھی بات کہی ہے ۔ ؎
ہاتھ سے کس نے ساغرپٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا میخانہ بھی
آج کی بے کیفی شام تک نوحۂ غم کے سانچے میں ڈھلتی رہی ۔ شام ہوئی تو ۲۷؍ اشعار کی ناتمام سی نظم تیار ہوچکی تھی، پھر طبیعت کا غبار چھٹ گیا ۔ دوسرے دن بہت کوشش کی کہ چند اشعار اور ہوجائیں ، تو نظم مکمل ہوجائے ۔ لیکن نہیں ہوئے ، یہ نظم یونہی پڑی رہی ۔اب اس کو شائع کرنے کا خیال عزیزم مولانا ضیاء الحق سلّمہ کو ہوا تو ارادہ ہوا کہ یہ تُک بندیاں کسی صاحبِ نظر کو دکھا لی جائیں ۔ رفیقِ محترم مولانا فضلِ حق صاحب عارفؔ خیرآبادی مدظلہٗ کی خدمت میں انھیں پیش کیا تو انھوں نے کچھ نوک