اعتبار سے بہت مناسب تدریج ہے ،آسانی سے دشواری کی طرف یہ کتابیں چلی ہیں ،جیسے جیسے طلبہ کی ذہنی صلاحیت اورمعلومات میں اضافہ ہوتاہے اس کے حصوں کا معیار بھی بلند ہوجاتاہے اس کے چار حصے ہیں ، پہلا حصہ ہمارے مدرسہ میں عربی اول مین ششماہی امتحان کے بعد سے ہے ،دوسرا اورتیسرا حصہ عربی دوم میں ہے، حضرت مولانا جمیل احمد صاحب مبارک پوری اسے پڑھاتے تھے ،مولانا نہایت سیدھے سادے ،ذی استعداد اوربالکل نوجوان مدرس تھے، سبق کی تقریر بہت عمدہ کرتے تھے،تدریس کی صلاحیت بہت عمدہ تھی، عربی ادب سے خصوصی دلچسپی رکھتے تھے ،القرأۃ الرشیدہ کے مشکل الفاظ کو پہلے خود اپنی کاپی پرلکھتے ،لفظ کا معنی اس کا مادہ مجردمیں اس کا باب اورپھر اس کا معنی، اسم ہے توواحد اور اس کی جمع،مذکر ہے تو اس کا مونث،اس کا فعل کس باب سے آئے گا، اوراس کے کیا معنی ہوں گے ، یہ تفصیلات ہواکرتیں ،اپنی کاپی پر لکھتے مگر زبانی لکھواتے اسی التزام کے ساتھ دونوں حصے پڑھائے ،القرأۃ الرشیدہ میں عبارت پر اعراب اورحرکات لگے ہوتے ہیں ، تاہم نحوی ترکیب پوچھ لیاکرتے تھے، ترجمہ بہت عمدہ کراتے نہ بالکل بامحاورہ کہ یہ معلوم ہی نہ ہوسکے کہ کس لفظ کا ترجمہ کیاہے اورنہ اتنا تحت اللفظ کہ ترجمہ سے مطلب واضح ہی نہ ہو، ہر لفظ کا ترجمہ الگ الگ واضح ہوجاتا، اورساتھ ہی ساتھ مطلب بھی کھل جاتا،پھر ترجمہ مکررسہ کررکراتے ، اس لئے دوران درس ہی پوراسبق یاد ہوجاتا،اس درس سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ جمعرات کو گھنٹے میں اردوسے عربی میں ترجمہ کراتے ،میرے ساتھی جوعربی اول بھی یہیں پڑھے ہوئے تھے ،وہ خوب منجھے ہوئے تھے ،وہ آسانی سے ترجمہ کرلیتے تھے اورمیرے لئے یہ پہلا اتفاق تھا ،اتفاق دیکھئے کہ پہلی ہی جمعرات کو مولانا نے لکھوایا’’ باسی روٹی‘‘ روٹی کی عربی مجھے معلوم تھی، مگر باسی کی معلوم نہ تھی،اوراس وقت کسی اردو عربی لغت سے استفادہ کی نوبت آئی نہیں تھی ، میں حیران تھا کہ کیاکروں میری جوشامت آئی میں نے اپنے ایک ساتھی سے باسی کی عربی پوچھ دی وہ زور سے ہنس پڑا، مولانا متوجہ ہوگئے کہ کیابات ہے وہ کہنے لگا کہ اس کو باسی کی عربی معلوم نہیں ،پرانے طلبہ کیلئے وہ پرانی ہوچکی تھی، میں جانتاہی نہ تھا ان کا ہنسنا بھی