کجروی اور گمرہی کی علامت بن کر رہ گئے ہیں ۔
حضرت مولانا فخرالدین صاحب شیخ الحدیث کی خدمت میں
عید گزرگئی اب مدرسے کھلنے والے ہیں دارالعلوم دیوبند میں داخلے کی گنجائش نہیں ۔ ایک دن میں اورمولوی طاہر حسین جلال آباد حضرت مولانا مسیح اللہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت نے بہت محبت وشفقت کا برتاؤ کیا،مگر ظاہرہے کہ داخلے سے وہ بھی معذورتھے۔عید کے چند روزکے بعد ہم تین آدمی مولوی طاہر اورمولوی عزیزالرحمٰن اورمیں ، مرادآباد شیخ الحدیث حضرت مولانا فخرالدین صاحب نوراللہ مرقدہٗ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان سے درخواست کی گئی وہ کہیں ہم لوگوں کاداخلہ کرادیں ، شیخ نے فرمایاکہ امروہہ میں جامع مسجد کے مدرسے میں داخلہ کراسکتاہوں ،سب خوش ہوگئے تھوڑی دیر کے بعد میری طرف متوجہ ہوکرفرمایاکہ تمھارے بارے میں مبارک پور سے کچھ ایسی بات آئی ہے کہ تمھارا داخلہ نہیں کراسکوں گا، میں نے دریافت نہیں کیاکہ وہاں سے کیابات آئی ہے،اللہ کی مشیت سمجھ کر میں چپ ہورہا۔مدرسہ جب کھلاتو ہمارے کئی ساتھی جامع مسجد امروہہ میں داخل ہوگئے ، مولوی طاہر حسین صاحب نے مجھ سے کہاکہ تم بھی چلو بات چیت کی جائے گی مگر میری ہمت نہ ہوئی، میں نے دیوبند میں رہنا طے کرلیا ، درسیات کو مطالعہ سے حل کرنے کا ارادہ تھا، بعض علماء نظر میں تھے ان سے مددلینے کو سوچ رکھاتھا ،حافظ شبیراحمدصاحب کی محبت اوررفاقت بہت قیمتی تھی۔ ایک ہفتے کے بعدمولوی طاہر صاحب امروہہ سے دیوبند آئے انھوں نے کہاکہ میں مدرسہ کے مہتمم قاری فضل الرحمن صاحب سے بات کرچکاہوں ، تمھارابھی وہاں داخلہ ہوجائے گا، میں نے انکا رکردیا،انھوں نے اصرارکیا، اچھی خاصی بحث ہوئی مگر وہ اپنی بات منواناچاہتے تھے ،میں مانتانہیں تھا ،حافظ صاحب کومیں نے فیصل بنایا انھوں نے کافی دیر گفتگو کے بعد فیصلہ سنایاکہ آپ چلے جائیں چنانچہ میں تیار ہوگیا صبح فجر کے پہلے ٹرین سے ہم لوگ امروہہ کے لئے چل دئیے،ظہر کے بعد امروہہ پہونچ گئے ، میں نے وہاں کی سب باتیں دریافت کرنے کے بعد پوچھا کہ وہاں دورۂ حدیث کایہی ایک مدرسہ ہے