طرف نگاہ اٹھتی، دلچسپی کا تمامتر محور نماز ، عبادت ، تلاوت اورآخرت کا تصور تھا ۔ روزہ رکھتا ، تو مسلسل رکھے جاتا، اس وقت کے غلبۂ رجحان نے مستقبل سے بے پروا ہوکر کئی معاملات طے کرڈالے۔ میں نے بارگاہِ الٰہی میں خاموش زبان سے یہ عہد کرلیاتھا کہ میں دنیا میں مکان کی تعمیر سے ہمیشہ کنارہ کش رہوں گا ، اینٹ پر اینٹ رکھنے کا عمل نہ کروں گا ، دل نے حق تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ بھی عرض کرڈالا کہ مال کی بہتات سے مجھے محفوظ رکھاجائے ، میری قسمت کا جو بھی مال ہواسے دوسروں کے حوالے فرمادیجئے ، اور جب مجھے ضرورت ہو نکل نکل کرمال میرے پاس آجایا کرے ، دوسرے میرے مال کے خزانچی اور محاسب ہوں ، میں اس سے پاک رہوں ، میرے اندر حساب رکھنے اور حساب دینے کی نہ ہمت ہے ، نہ طاقت!
(۲)
ان دنوں جب کہ میں گھر پر مستقل مقیم تھا ، کتابوں کا مطالعہ بھی جاری تھا ، حفظ قرآن کا عمل بھی چل رہاتھا ، محبت الٰہی اور محبت رسول کی فراوانی بھی تھی ، غلبۂ محبت نے مدتوں میری زبان اور میرے قلب سے اس دعا کا ورد کرایا ، جو امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب صکی جانب منسوب ہے ، یعنی
اللّٰھم ارزقنی شہادۃً فی سبیلک والموت فی بلد رسولک
اے اﷲ!اپنی راہ میں مجھے شہادت نصیب فرمائیے ، اور موت اپنے رسول کے شہر میں عنایت فرمائیے۔
میں کرگہہ پر کپڑا بنتا رہتا تھا ، اس پر کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ بھی جاری رہتا ، اور جب اس سے فارغ ہوتا ، تو یہ دعا مسلسل جاری رہتی ، اس وقت شوقِ شہادت کا عجیب عالم تھا، شوقِ شہادت میں حضرت سیّد احمد شہید قدس سرہٗ کی زبان مبارک سے یہ شعر اکثرا دا ہوتا تھا ، اسے یاد کرکے میں بھی بکثرت اسے دہراتا۔
جان کی قیمت دیارِ عشق میں ہے کوئے دوست
اس نویدِ جاں فزا سے سر وبالِ دوش ہے