کھلی ہوا کا مدرسہ:
میرے آنے سے پہلے عزیز الحسن صاحب نے مدرسہ کی افادیت کو عام کرنے کے لئے ایک بڑا منصوبہ بنایا تھا اور اس پر عمل در آمد بھی ہواتھا ، جس سے مدرسہ کی خاصی شہرت ہوگئی تھی۔ اس منصوبہ کانام انھوں نے ’’ کھلی ہوا کا مدرسہ ‘‘ رکھاتھا ، انھوں نے شہر کے تنگ ماحول سے مدرسہ کو ، مدرسہ کے اساتذہ کو ،مدرسہ کے طلبہ کو ، مدرسہ کے انتظام کو ، مدرسہ کے دفتر اور مطبخ کو اٹھایا ، اور اس سارے تام جھام کو لے ایک گاؤں دیہات میں ڈیرا جمادیا۔ وہاں اسباق ہورہے ہیں ، اساتذہ ہیں ، طلبہ ہیں ، باورچی ہے ، دفتر ہے ، گھنٹہ بج رہا ہے ، طلبہ کتابیں لے کر بیٹھے ، اساتذہ درس دے رہے ، گاؤں کا ماحول بالکل مدرسہ کے ماحول میں بدل گیا ہے ، یہ ایک نئی چیز تھی ، ایک ہفتہ تک اس گاؤں میں خوب چہل پہل رہی ، لوگ آتے اور مدرسہ کی رونق دیکھتے ، متاثر ہوتے ، ایک ہفتہ مدرسہ چلتا رہا ، پھر انھوں نے ایک جلسہ کیا ، جس میں اس وقت کے بڑے عالم وخطیب حضرت مولانا ضمیر احمد صاحب جلال پوری علیہ الرحمہ تشریف لائے، انھوں نے تقریر فرمائی ، اورفرمایا کہ ہم لوگ کہتے ہیں کہ لوگو! آؤاور مدرسہ دیکھو ، عزیز صاحب نے خطاب وانداز بدل دیا ، یہ کہتے ہیں لیجئے اور مدرسہ دیکھئے ! یہ ان کا اجتہاد ہے ، لیکن غازی پور کا ضلع دینی تعلیمی اعتبار سے ایک پژمردہ ضلع ہے ، میں جب مدرسہ دینیہ میں آیا تو اس ’’ کھلی ہوا کے مدرسہ ‘‘ کا بجز کاغذی تحریر کے اور کوئی خاص اثر نہیں دیکھا ، ہاں تھوڑی سی شہرت بڑھی تھی مگر ضلع غازی پور میں نہ کوئی تعلیمی یا دینی جذبہ بیدار ہوتا ہوا محسوس ہوا نہ مدرسہ میں طلبہ کا کوئی اضافہ ہوا ، بس ایک مردنی سی مردنی تھی اور افسردگی سی افسردگی!
اس کی وجہ جو بھی رہی ہو، مگر میرے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ باہر کی شہرت اور کاغذ کی تحریریں مدرسہ کی افادیت کے لئے زیادہ کارآمد نہیں ہوتیں ، مدرسہ کا داخلی نظام جب تک ٹھوس اور پختہ نہ ہو مدرسہ ترقی نہیں کرتا ، اساتذہ اچھے ہوں ، تعلیم کا نظام عمدہ ہو ، طلبہ کو تعلیمی مشاغل کے لئے فارغ رکھاجائے ، ان سے تعلیم کی محنت لی جائے ، تب مدرسہ پھلتا