طبعی خوبیاں نمایاں ہوتیں ، مفتی صاحب بایں جلالت شان ہر خدمت میں سب سے بڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کرتے ، اور اس لطیف طریقے سے کہ دوسرے منہ دیکھتے رہ جاتے ، اور وہ خدمت انجام دے کر اس طرح آسودہ اور مطمئن ہوتے ، جیسے انھوں نے اپنا فرض ادا کردیا ہو۔
مجھے یاد ہے کہ ایک روزمیں مدرسہ سے ٹفن میں اپنا کھانا لے کر چلا ، مفتی صاحب کے گھر پر اجتماعِ احباب تھا ، مالتی باغ کی مسجد کے قریب سے مدن پورہ کی راہ گیروں سے بھری ہوئی گلیوں سے گزررہا تھا کہ اچانک مفتی صاحب مل گئے ، انھوں نے بے تکلف میرے ہاتھ سے ٹفن لے لیا ، میں روکتا ہی رہ گیا ، مگر انھوں نے یہ کہہ کر کہ اس وقت مجھے ہی لے کر چلنا چاہئے ، بات ختم کردی، میں پریشان اور پشیمان ان کے ساتھ خالی ہاتھ چلتا رہا ، لیکن ان کا انداز عمل یہ تھا کہ انھوں نے میرے ساتھ کوئی خاص حسن سلوک یا خدمت کاکام نہیں کیا ہے بلکہ یہی ان کا فریضہ تھا ، جو وہ بجا لائے ۔ اور یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ، آج بھی مفتی صاحب کا مزاج اور ان کی طبیعت یہی ہے ، مجھے ان کے ساتھ بارہا رہنے ، کھانے ، سفرکرنے کاموقع ملا ہے ، میں ہمیشہ اپنی ناکارگی اور کاہلی پر پشیمان رہا ، اور وہ خدمت کرکے آسودہ اور مطمئن رہے۔
(۲)
مدن پورہ بنارس میں مفتی صاحب کی سرپرستی میں دینداروں کی ایک تنظیم ، مسلمانوں میں دینی بیداری کے لئے ، اصلاح عقائد واعمال کے لئے ’’ انجمن اصلاح المسلمین ‘‘ کے نام سے سرگرم عمل تھی ، اس کے تمام اراکین کا دیندار اور نمازی ہونا ضروری تھا ، مفتی صاحب کی سرپرستی اور نگرانی میں دینداروں کا ایک عمدہ حلقہ ان کے ساتھ وابستہ تھا ، اس انجمن کے ماتحت ہر پندرہ دن پر مدن پورہ کی کسی کوٹھی میں ایک صاف ستھرا دینی جلسہ منعقد ہوتا ، مدن پورہ ماشاء اﷲ خوش حال اہل ثروت کا محلہ ہے ، وہاں عموماً رہائش پہلی منزل پر ہے، زمین والا حصہ خالی ہوتا ہے یا اس میں کپڑا بننے کے کارخانے ہوتے ہیں ، انجمن کے اراکین کسی ایک کوٹھی کو صاحب مکان کی فرمائش پر یا ان سے فرمائش کرکے طے کرلیتے اور اعلان ہوجاتا کہ