تھے ، انھوں نے اصرار نہیں کیا ، بلکہ اور دونوں باراتیں بھی انھوں نے منسوخ کردیں ۔
تاریخ مقرر ہ پر میری اہلیہ میرے گھر آگئی ، اور اس وقت کی جو معاشرتی رسمیں تھیں ، انھیں نظر انداز کردیا گیا۔
میری افتاد طبع
(۱)
جن دنوں میری خانہ آبادی کا معاملہ طے ہورہا تھا، میر ی طبیعت کا رنگ کچھ عجیب ساتھا ، دیوبند کے حادثے نے جو چوٹ پہونچائی تھی ، اور اس کے بعد حضرت سیّد احمد شہید علیہ الرحمہ کے حالاتِ زندگی نے جس طرح متاثر کیا تھا ، اور پھر تبلیغی جماعت کے دورۂ یکسوئی نے جو اثر ڈالاتھا ، اس کے نتیجے میں طبیعت دنیا اور لذاتِ دنیا سے نہ صرف یکسو ہوگئی تھی بلکہ ایک درجہ میں دنیا سے بیزاری کا رجحان پیدا ہوگیا تھا ، رہبانیت کی طرف دل کا میلان ہوچلاتھا ۔ رہبانیت کی ناپسندیدگی کے متعلق قرآن کریم کی آیت اور احادیث کااستحضار قلب ودماغ میں تھا ، اس لئے اس کی طرف کوئی عملی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی، مگر دل کا رجحان اتنا شدید تھا کہ یہ نصوص دامن گیر نہ ہوتے ، تو میں دنیا اور حطام دنیا کو جھٹک کر کہیں گم ہوجاتا ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ رات کے سناٹے میں مَیں خود کو تنہا محسوس کرتا تھا، ایک خدا اور ایک بندے کے علاوہ اور کسی کا وجود محسوس نہ ہوتا۔ اس وقت اقبال مرحوم کے یہ اشعار اکثر ذہن ودماغ میں گونجا کرتے ؎
کارواں تھک کر فضا کے پیچ وخم میں رہ گیا
مہر وماہ ومشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ رہ رَو کی صدائے درد ناک
جس کو آوازِ رحیلِ کارواں سمجھا تھا میں
اس وقت ترکِ دنیا کااس درجہ غلبہ تھا کہ دنیا اور حیاۃ دنیا کی کسی متاع سے کوئی دلچسپی نہ تھی ، مجھے نہ مال کا تصور آتا نہ گھر مکان کی کوئی فکر ہوتی، نہ دنیا کے کسی مستقبل کی