سے پہلے مطالعہ ، اوردرس کے بعد تکرار ومذاکرہ! اس سے بہت فائدہ ہوا، استعداد تو جیسے آناًفاناً ترقی کرتی چلی گئی،ساری کتابیں بحمداللہ مطالعہ میں حل ہوجاتی تھیں ۔
عربی کے مطالعہ اورتحریر کی رفتار بھی ماشاء اللہ اچھی رہی،انشاء پردازی اورلغات پر خاصا عبورہوگیا ،اس وقت لغات مجھے اس طرح مستحضر ہوگئے تھے کہ ہمارے بعض رفقاء کہتے تھے کہ لغت دیکھنے کی الجھن میں کون پڑے جس لفظ کی ضرورت ہو تم سے پوچھ لینا کافی ہے۔
مولوی کا امتحان
غالباًعربی سوم کا سال قریب اختتام کے تھا ، کہ ایک روز ہم کئی ساتھیوں کی طلبی دار الاہتمام میں ہوئی ، وہاں مبارک پور کے خوش الحان قاری انوار الحق صاحب علیہ الرحمہ موجود تھے ، قاری صاحب موصوف پہلے جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبورکپور میں شعبۂ تجوید وقرأت کے استاذ تھے، پھر جامعہ اسلامیہ بنارس میں مدرس ہوکر چلے گئے تھے ، قاری صاحب جامعہ اسلامیہ کی طرف سے بھیجے گئے تھے، جامعہ اسلامیہ کا الحاق گورنمنٹ کے عربی فارسی بورڈ سے تھا ، لیکن اس میں عربی فارسی کے طلبہ نہیں تھے ، الہ آباد بورڈ سے امتحان دلانے کے لئے انھیں طلبہ کی ضرورت تھی ، اسی مقصد کے لئے وہ مبارک پور بھیجے گئے، کہ احیاء العلوم سے طلبہ مل جائیں گے ، بنارس کے اہل انتظام کے مولانا عبد الباری صاحب مرحوم سے گہرے اور مضبوط روابط تھے ، انھیں یقین تھا کہ یہاں سے بے تکلف ، ان کے معیار کے طلبہ مل جائیں گے ،جامعہ عربیہ احیاء العلوم اس دور کا بہت معیاری اور مرکزی مدرسہ تھا جو تعلیم کی خوبی اور انتظام کی عمدگی میں معروف تھا ، اور اس کا الحاق الہ آباد بورڈ سے نہ تھا ۔
ناظم صاحب نے ہم پانچ طالب علموں سے امتحان کے فارم بھروائے ، چند ایک نے جو اوپر کی جماعتوں کے طالب علم تھے ، عالم کا فارم بھرا ، اور میرے ہم درس رفقاء نے جن میں مَیں بھی شامل تھا ،’’ مولوی‘‘ کے فارم بھرے ، قاری صاحب خوش خوش کامیاب واپس ہوئے ، ہم لوگوں نے اس عمل کو کوئی اہمیت نہ دی تھی ، جیسے منجملہ اور کھیلوں کے ایک کھیل یہ بھی ہو ، اس میں کیا کرنا ہے؟ کن کتابوں کی تیاری کرنی ہے ؟ کیا کیا پڑھنا ہے ؟ اس کی