نواں باب
دارالعلوم دیوبند کی تیاری اور داخلہ
(اب جو کچھ لکھ رہاہوں ، یہ آج سے بہت پہلے تقریباً ۲۵؍سال پہلے کی تحریر ہے، جو خوبی ٔ قسمت سے عزیزم مولانا حافظ ضیاء الحق خیر آبادی سلّمہ کے ہاتھ لگ گئی ، اس لئے محفوظ
رہ گئی ۔ اس کو من وعن اس داستان سرائی کا حصہ بناتاہوں )
(۱)
ہجری ۱۳۸۸ھ اور عیسوی ۱۹۶۸ء کا زمانہ ہے ، رمضان کا مہینہ، ایک طالب علم غریب الدیار، مسکین صورت ، حقیر وبے مایہ ، جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور کے وسیع و عریض صحن میں ، مضطربانہ ٹہل رہا ہے، بار بار نگاہ صدر دروازے کی جانب اٹھ جارہی ہے، ابھی تک وہ نہیں آیا ؟ کیا اس نے ارادہ بدل دیا؟ کیامجھے گھر جانا پڑے گا؟ نہیں ، وہ آئے یا نہ آئے ، میں گھر نہیں جاؤں گا، مدرسہ کا کتب خانہ دوبارہ نصیب نہ ہوگا، رمضان بھر درس کی مصروفیت سے فراغت رہے گی، سیر ہوکر کتابوں کا مطالعہ کروں گا ، یہی سوچتے سوچتے پھر جو اچانک نگاہ اٹھی، تو دروازے سے ایک طالب علم آتا ہوا دکھائی دیا ، یہی ہے، جس کا انتظار تھا ، رنگت سانولی، قد میانہ، اٹھارہ بیس سال کا سن ، چہرے پر خوبصورت چھوٹی سی داڑھی، ہونٹوں پر مسلسل مسکراہٹ ، علی گڈھ پاجامہ ، چھوٹا سا کرتا، اجمل کیپ! یہ ہیں مولوی الطاف احسن ، اساڑھا ضلع اعظم گڈھ ،اطراف سرائمیر کے رہنے والے ، مدرسۃ الاصلاح سرائمیر کے طالب علم! اور دوسرا یہ حقیر وآثم ، ان سطور کا راقم، ناآشنائے حقیقت گرفتار مجاز، برائے نام اعجاز!
مولوی الطاف سے پہلی ملاقات شعبان میں ، مدرسہ احیاء العلوم کے اسی صحن میں