آپ سبق میں آیا کیجئے ، میں کہہ دوں گا ۔ میں صف ثانوی کے سبق میں حاضری دینے لگا، مگر درسگاہ میں تعلیمات کی جانب سے رجسٹر طلبہ آیا تو اس میں میرا نام نہ تھا ، میں تعلیمات میں گیا ، میں نے اس کی تحقیق کی ، تو معلوم ہوا کہ مولانا کی طرف سے تصدیق نہیں آئی ہے ، میں حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا ، تو مولانا نے ایک تحریر لکھ کر دی ، وہ تحریر میرے پاس محفوظ نہیں ہے ، میں نے اسی وقت اس کی نقل والد صاحب کی خدمت میں بھیج دی تھی ، ان کی اصل تحریر تو دفتر تعلیمات میں جمع ہوگئی تھی ، اس کے الفاظ تو اب یاد ہونے کا سوال ہی نہیں ، مضمون یہ تھا :
’’ میں نے اس طالب علم کا امتحان لیا تھا ، ماشاء اﷲ استعداد اچھی ہے ، آئندہ ان سے بہتر توقعات ہیں ، یہ صف ثانوی میں داخلہ کے مستحق ہیں ، ان کا نام شامل کرلیا جائے۔
یہ تحریر میں نے دفتر تعلیمات میں جمع کردی، پھر میرانام رجسٹر میں درج ہوگیا۔ صف ثانوی کا درس بعد نماز مغرب ہوتا تھا ، اس درس میں طلبہ کی تعداد بہت زیادہ نہ تھی، منتخب طلبہ ہی تھے۔ مفتی عزیز الرحمن صاحب( بمبئی ) مولانا نور عالم صاحب ( دیوبند ) مولانا بدرالحسن صاحب ( کویت) مولانا مجیب اﷲ صاحب (دیوبند) اس میں تھے ، مولانا اس درس کا بہت اہتمام کرتے تھے ، صف ثانوی میں زیادہ تر وہی طلبہ شامل تھے ، جو پچھلے سال صف اول میں تعلیم حاصل کرچکے تھے ، میں نووارد تھا ، اس لئے صف اول کی تعلیم سے بے بہرہ تھا ، تعلیم کا ابھی آغاز تھا ، مولانا سب طلبہ کو ایک دوسرے سے متعارف کرانا چاہ رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی وہ ہر طالب علم کی ذہنی ودماغی استعداد بھی معلوم کرنا چاہتے تھے ، تاکہ ہر طالب علم کے ساتھ تعلیم وتشجیع کا معاملہ اس کی استعداد کے مطابق کرسکیں ۔
ایک قابل ذکر واقعہ:
آغاز تعلیم میں جمعہ کا وقفہ ہوا، میں اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ سہارن پور ،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب علیہ الرحمہ کی زیارت وملاقات کی غرض سے گیا ، شیخ سے مصافحہ ہوا، مجلس میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی ، دستر خوان پر شیخ کی مہربانیاں دیکھیں