۲۰۰۳ء میں حج کاسفر ہوا۔منیٰ میں بیت الخلاء پر لمبی لائن تھی ایک لائن میں میں تھا، دوسری لائن میں ایک سفید ریش بزرگ تھے، ان کی لائن میں ایک آدمی کوعجلت تھی یہ بزرگ اسے آہستہ آہستہ سمجھارہے تھے،ان کے تکلم کے انداز سے مجھے شبہ ہورہاتھاکہ مولوی اجمل صاحب ہیں ، لیکن سرکے بال اورداڑھی اتنی سفید تھی کہ میں پہچان نہ سکا ،احرام کی حالت میں یوں بھی شناخت مشکل ہوجاتی ہے، بات ختم ہوگئی، وہ دن احرام اتارنے کا تھا میں نے نہادھوکر احرام اتارا، خیمہ کے باہر نکلا تو وہی صاحب احرام اتارکر لنگی کرتے میں ٹوپی سرپر پہنے ہوئے ٹہل رہے تھے،مجھ سے نہیں رہاگیا، میں نے سلام مصافحہ کرکے پوچھاکہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں ،بولے غازیپور سے، میں نے کہاں کہ آپ مولوی اجمل صاحب ہیں ؟بولے ہاں ،میں نے اپنا نام بتایاتو لپٹ گئے،یہ ملاقات غالباً دس سال بعد ہوئی تھی۔
اس کے بعد ۲۰۰۶ء کے دونوں حجوں میں ان سے ملاقات ہوئی وہی شان قلندرانہ ہے ،اللہ تعالیٰ اچھارکھیں ۔
(۸)حافظ الطاف حسین صاحب کامالی احسان
طالب علمی کے دورکایہ آخری واقعہ لکھ رہاہوں اس پر اصطلاحی دور طالب علمی کاخاتمہ ہورہاہے، اس پر زندگی کا ورق پلٹ رہاہے۔
جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارکپور میں داخلہ کے بعد جن رفقاء سے خواجہ تاشی کا تعلق ہوا،ان میں دوساتھیوں سے بہت گہراتعلق ہوا،ایسا تعلق جسے دوستی کہئے۔ان میں ایک مولوی محمدعامر مرحوم تھے،یہ مبارک پور کے رہنے والے تھے، ان کاتذکرہ آئندہ آئے گا ان شاء اللہ ، دوسرے حافظ الطاف حسین صاحب ،یہ اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں محی الدین پور کے رہنے والے ہیں ،اب جہاں میں مدرس ہوں ،شیخوپور، اس سے ایک کلو میٹر مشرق میں یہ چھوٹا ساگاؤں ہے یہ احیاء العلوم کے ممتاز طلبہ میں شمار ہوتے تھے ،قرآن بھی یہیں حفظ کیا، اوریہیں عربی فارسی تعلیم کاآغاز ہوا۔میں جب عربی دوم میں یہاں داخل ہواتو انھیں یہاں چھ سال گزر چکے تھے،عمر میں مجھ سے کئی سال زائدتھے، دوستی کی بنیاد اسی دقت پڑگئی تھی،