النادی الادبی:
مولانا نے درس کی پابندیوں کے علاوہ طلبہ میں انشاء وتکلم کی بے تکلف مشق وتمرین کے لئے ان کی ایک نیم خود مختار انجمن قائم کی تھی ، اس کا نام ’’ النادی الادبی ‘‘ تھا ، النادی کے تحت عربی زبان کے دیواری پرچے تینوں درجات کے الگ الگ نکالے جاتے ، عموماً ہر درجے کے پندرہ روزہ دو دو پرچے ہوتے ، ہم لوگوں کے درجے میں ’’ النہضۃ‘‘ نام کے دو پندرہ روزہ پرچے نکلتے تھے ، دونوں پرچوں کے الگ الگ مدیر تھے ، جب اس پرچے کا منصوبہ تیار ہوا تو مولانا نے فرمایا کہ جولوگ اس کی ادارت کی ذمہ داری کا بار اٹھا سکتے ہوں وہ اپنا نام پیش کریں ، ہمارے ساتھیوں میں سے چارنے اپنا اپنا نام پیش کیا، مولانا نے حکم دیا کہ چاروں طلبہ فل اسکیپ صفحہ کا ایک ایک مضمون عربی زبان میں لکھیں اور خوشخط لکھ کر دکھائیں ، چاروں نے ایک ایک مضمون لکھااور اپنی بساط بھر خوشخط لکھنے کی کوشش کی ۔ مولانا کے سامنے یہ مضامین پیش ہوئے تو ا ن میں سب سے عمدہ خط نور عالم مظفرپوری کا تھا ، جواَب دار العلوم دیوبند میں عربی ادب کے استاذ مولانا نور عالم خلیل امینی ہیں ۔ اور معلومات ، اسلوب تحریر اور حسن انشاء کے اعتبار سے مولانا کی نظر میں اس خاکسار کا مضمون بہتر تھا، مولانا نے دونوں کی تحسین فرمائی ، اور ایک ایک پرچے کا دونوں کو مدیر بنادیا، اور دوسرے دونوں طلبہ کو ان کا نائب بنایا۔
ابھی ’’ النہضۃ ‘‘ کے دویاتین شمارے نکلے تھے کہ ہندوستان کے پہلے مسلمان صدر جمہوریہ اور مشہور ماہر تعلیم ڈاکٹر ذاکر حسین کا ۳؍مئی ۱۹۶۹ء کو انتقال ہوا۔ ان کی وفات سے ہم لوگ بہت متاثر تھے ، اسی تاثر میں ڈوب کر میں نے عربی زبان میں ایک مضمون لکھا، مولانا کو دکھایا تو اسے پڑھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ اس سال جیسے مضامین لکھے جارہے ہیں میں چاہتا ہوں کہ اخیر سال میں ایک میگزین شائع کیا جائے ، جس میں یہ مضامین محفوظ کردئے جائیں ، ہم لوگ بڑے حوصلے اور شوق وولولے کے ساتھ عربی زبان میں انشاء وتکلم کی مہارت بہم پہونچاتے رہے۔