پلک درست کردئے اور مقطع کا ایک شعر اس میں بڑھا دیا ۔ تاکہ نظم پر ناتمام ہونے کا داغ نہ رہ جائے ۔
استاذمحترم کی وفات پر کہا ہوا مرثیہ ، ایک غزل جو قیام الہ آباد کے زمانے کی ہے، اور فارسی زبان میں ایک حمد محفوظ ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
نـــالۂ غـم:
بیاداستاذِ محترم حضرت مولانا محمد مسلم صاحب علیہ الرحمہ
باغ ہے اجڑا ہوا ،ساری فضا خاموش ہے
عندلیبِ خوشنوا شاید کوئی روپوش ہے
کیوں نہیں تھمتے ہیں آنسو آج آنکھوں سے مری
ناگہاں ٹوٹی ہے مروارید کی جیسے لڑی
کیوں فضا تاریک ہے ،پُرہول منظر چار سو
مضطرب دل ، دم گھٹا جاتاہے آنکھوں میں لہو
میں ہی کیا ؟روتے ہیں فرقت میں زمین وآسماں
دیکھئے !آنکھیں ہیں کسکے غم سے خوننابہ فشاں
کون ہے وہ جسکی فرقت سے یہ کل ناشاد ہیں
کس کے جانے سے یہ محوِ نالہ وفریاد ہیں
ہم نشینِ بے خبر کچھ بھی خبر ہوتی مری
کاش تیری آنکھ کو حاصل نظر ہوتی مری
کاش میرا درد تجھ پر بھی عیاں ہوتا ذرا
کاش تو بھی جانتا میں میں کیوں ہوا بے دست وپا
آ!بتاؤں میں تجھے میں چاک داماں کیوں ہوا تھاوہ پیکر لطف وشفقت کا سراپا عزم تھا
چشم خوننابہ فشاں اور سینہ بریاں کیوں ہوا
آبروئے دین ودانش یعنی شمعِ بزم تھا
قافلہ محوِسفر تھا ،سوئے منزل بے خطر
قافلہ سالار تھا اک مرد کامل باخبر
قافلہ والے تھے شاداں جانب منزل رواں
یک بیک انکے سروں پر چھایانکبت کا دھواں
قافلہ سالار اچانک یوں جہاں سے چل بسا
خوابِ نوشیں سے یکایک جیسے کوئی اٹھ گیا
کون تھا وہ قافلہ سالار مجھ سے سن ذرا
آہ! مولانائے مسلمؒ کیا نہیں تجھ کو پتا
کون مولانا؟مرے استاذ عالی ،محترم
ذات تھی جن کی سراپا خیر وبرکت ،مغتنم
وہ جنھوں نے میرے دل کو علم سے روشن کیا
ایک ویرانہ تھا جس کو رشکِ صد گلشن کیا