میں کوئی نارواخیال آیا۔وہ وقت بیت گیا اب سوچتاہوں ،تو عجیب سا محسوس ہوتاہے، اپنے طلبہ کو یہ واقعہ سناتاہوں آج پہلی مرتبہ قلمبند کررہاہوں وہ دوربہت صبر آزماتھا۔
مطبخ کے نظام میں میری شمولیت:
پچھلے صفحات میں ذکر آچکا ہے کہ میرے کھانے کاانتظام ، جاگیر کے نظام کے تحت تھا، جاگیر کی تشریح وہیں گزر چکی ہے ، اس نظام کے تحت میں دوسال رہا۔
شرح جامی کے درجے میں مَیں کمسنوں کی فہرست سے خارج ہوگیا ناظم صاحب نے حکم دیا کہ اب تمھیں مدرسہ کے مطبخ سے کھاناملے گا ،اس حکم سے کتنی خوشی ہوئی اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، مطبخ کاکھاناجاگیر کے کھانے کے مقابلے میں بہت کمتر تھا مگر میں خوش تھا ،مجھے اعتراف ہے کہ جاگیر کے دونوں گھروں میں میری عزت ومنزلت میری حیثیت سے بہت زائد تھی، مگر میں کیاکروں ؟ میں کسی اورہی حال میں تھا۔
مطبخ کا کھانا ان دنوں بس ایساہوتاتھا کہ بھوک کا مسئلہ اس سے بقدر ضرورت حل ہوجاتاتھا اس وقت ملکی حالات بھی کچھ ایسے تھے اورمدارس بھی مالی بحران میں مبتلا تھے، اکثر مدارس کا ایساہی حال سننے میں آتاتھا،لیکن بحمداللہ کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ تعلیم ترک کردی جائے یاکم ازکم مدرسہ ہی بدل دیاجائے، میں نے کبھی کھانے کی شکایت نہیں کی، ایک مرتبہ بعض طلبہ کے ورغلانے سے میں نے ناظم صاحب سے کھانے کے مسئلے پر ہلکی سی گفتگوکی تھی ، مگر بہت ڈراورشرماکر پھر کبھی ایسی حرکت نہیں کی۔
طلبہ کے ساتھ میراطرزعمل
طلبہ کے درمیان میں تکرار ومذاکرہ کیلئے معروف تھا،طلبہ بکثرت مجھ سے کتاب کے سوالات کرتے تھے،بالخصوص امتحان کے زمانے میں ،مکتبی تعلیم کے دوران میرے استاذ حضرت مولوی محمدیوسف صاحب علیہ الرحمہ نے یہ بات خوب ذہن نشین کرادی تھی کہ علم وہ دولت ہے جوخرچ کرنے سے کم نہیں ہوتی بڑھتی ہے ،علم کی ایک بات ایک کو بتائی، پھر وہی