میں لگتا ،تو جذب ہوکر رہ جاتا ،ا مورِ دنیا کی طرف ضرورتاً توجہ کرتا ،تو طبیعت کو وحشت ہوتی۔
اسی لئے عام رہائشی مکان سے الگ تھلگ والد صاحب کے ایک غیر مسکون مکان کے ایک گوشے میں مَیں نے ٹاٹ سے گھیر کر ایک چھوٹا سا حجرہ بقدر نماز پڑھنے اور پاؤں پھیلانے کے بنا رکھاتھا ، دن رات اس میں بند رہتا ، صرف فرض نمازوں کے لئے مسجد جاتا ، یا سبق سنانے کے لئے حافظ صاحب کے پاس جاتا ، اور مغرب بعد ترجمہ قرآن پڑھانے کے لئے گاؤں کے مکتب میں حاضر ہوتااور بس! ہاں عصر کے بعد استاذ محترم مولانا عبد الستار صاحب علیہ الرحمہ کی خدمت میں مختصر سی حاضری دیتا۔
اسی غلبۂ حال کے زمانے میں میری اہلیہ پہلی بار رخصت کراکے گھر لائی گئی۔ میں نے پہلی ملاقات میں جو بات کی ، وہ یہ تھی کہ مجھ کو تمہارے ساتھ باندھ تو دیا گیا ہے ، مگر میں نہ دنیا کمانے کے کام کا ہوں ، نہ دنیا کاکوئی کام کروں گا، اﷲ کی عبادت ، رسول کی اطاعت اور دین اسلام کی خدمت جس قدر مجھ سے بن پڑے گی کرتا رہوں گا ، معلوم نہیں تمہارے اخراجات وضروریات کو میں نباہ سکوں یا نہ نباہ سکوں ؟ دین کی خدمت میں کبھی سفر ، کبھی گھر ، کبھی تنگی کبھی فراخی ، سب سے سابقہ پڑے گا ، اگر اس تنگی ترشی کے ساتھ بخوشی گزارا کرنا منظور ہو،توٹھیک ہے ، اور اگر نہیں ، تو میں ابھی زندگی میں تبدیلی لانے سے پہلے آزاد کردوں ؟
میری بیوی زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہے ، مگر ماشاء اﷲ فہیم ہے ، اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا کہ مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے ، جو کچھ بھی گزرے گی ، میں خوشی خوشی نباہوں گی ، اور اﷲ جزائے خیر دے ، وہ آج تک اپنے اس قول وقرار پر قائم ہے ، اس کے کچھ تذکرے اور اس کی جھلکیاں آئندہ سطروں میں آئیں گی ۔ ان شاء اﷲ
(۶)
اسی دور میں جبکہ دنیا سے وحشت غالب تھی ، کسی ضرورت سے میرا مئو ناتھ بھنجن جانا ہوا ، وہاں ایک رفیق کے ساتھ مئو کے ایک مشہور عالم کی خدمت میں حاضری ہوئی ، جو ایک