مخلوق سے زیادہ ہے ، مگر خارجی موثرات میں مبتلا ہوکر احسان مندی کے تقاضوں سے کتنا دور ہوجاتا ہے۔
مجھے جب یہ منظر یادآتا ہے، دل کی عجیب کیفیت ہونے لگتی ہے۔
شب برأت:
میسور میں علم دین کی کمی کی وجہ سے عجیب عجیب رسمیں رائج تھیں ، شب برأت کا موقع آیاتو مجھ سے لوگوں نے بکثرت سوالات کئے ، لوگوں نے اس رات میں طرح طرح کی نمازیں گڑھ رکھی ہیں ، جن کا مجھے علم نہیں تھا اور اس وقت بھی کچھ یاد نہیں آرہا ہے ، میں نے اپنی تقریروں میں شب برأت کی جو اصل حقیقت وحیثیت ہے اسے بیان کیا ، جب یہ رات آئی، تو لوگوں کا جم غفیر مسجد میں اکٹھا ہوا ، میں نے عشاء کے بعد ایک مبسوط وعظ کہا ، وعظ کے بعد لوگ عبادات میں مشغول ہوگئے ، میں اپنے کمرے میں تھا کہ ایک نوجوان آیا اور کہنے لگا ماچس کی ڈبیہ آدھی ہوچکی ہے ، میں تھک گیا ہوں ، اب ذرا تفریح کرنا چاہتاہوں ، میں نے پوچھا کیا مطلب ؟ بولا آپ جانتے نہیں ، آج سورکعت نماز پڑھنی ہے ، ماچس کی ایک ڈبیہ لوگ لاتے ہیں ، ہر دورکعت پر ماچس کی ایک تیلی نکال دیتے ہیں ، ایک ڈبیہ میں بچاس تیلیاں ہوتی ہیں ، جب ڈبیہ خالی ہوجاتی ہے تو گویا سورکعتیں مکمل ہوگئیں ۔ میں رکعت شماری کی اس تدبیر پر متحیر ہوگیا ، لیکن اس سے زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب اس نے تفریح کی شرح کی ، میں نے پوچھا تفریح کے لئے کہاں جاؤگے ؟اس نے کہا جارہا ہوں پکچر دیکھنے! میں نے حیرت زدہ ہوکر ڈانٹا کہ یہ کیا واہیات ہے ، تو اس نے بڑی معصومیت سے کہا کہ اس سے دل بہل جائے گا ، مجھے بہت صدمہ ہوا کہ جہالت نے مسلمان نوجوانوں کو کہاں تک پہونچارکھا ہے۔
٭٭٭٭٭