نہ ہوسکی اس سلسلے میں تفصیل آگے ان شاء اللہ آئے گی۔
حفظ قرآن کا آغاز
غالباً بیس روز گزرچکے تھے بردوان کے دیہاتی علاقوں میں دورہ ہورہا تھا، کھانا عشاء کے بعدکھایاجاتا،کھانے کے بعد امیرصاحب مجھے ساتھ لے کر میدان کی طرف چہل قدمی کیلئے نکل جاتے انھوں نے مجھ سے کہاکہ میں قرآن کی ایک سورہ پڑھتاہوں اس کا ترجمہ آپ کریں ،انھوں نے سورۂ رحمن شروع کی،میں ایک ایک آیت کاترجمہ کرتاوہ یاد کرتے، چند دنوں میں انھیں سورۂ رحمن کاترجمہ یادہوگیا، اورمجھے سورۂ رحمن یاد ہوگئی، انھوں نے مجھے ترجمہ سنایا، اورمیں نے سورۂ رحمن سنادی وہ بہت خوش ہوئے، اس کی تکمیل کے بعد انھوں نے سورہ واقعہ شرو ع کی، میں اس کی ایک ایک آیت کاترجمہ کرتا،چند دنوں میں انھیں ترجمہ اورمجھے سورۂ واقعہ یادہوگئی۔
حافظ صاحب میرے علم کی تازگی سے بہت متاثر ہوئے تھے، اب جو حافظہ کی قوت دیکھی تو کہنے لگے کہ آپ قرآن حفظ کرلیں ،میں نے لبیک کہی اوراسی وقت سے آخری منزل سورۂ ق سے یادکرنا شروع کردیا،جماعت کے مشاغل میں یادکرنے کا موقع کم ملتاتھا ،تاہم یادکرتارہا، اورچند دنوں میں آخری منزل پوری انھیں سنادی ،ادھر وہ مجھے حفظ قرآن کیلئے زوردے رہے تھے،دوسری طرف وہ مجھے سات چلے کیلئے جماعت میں لے جانا چاہ رہے تھے، جماعت کے چالیس دن پورے ہوگئے، انھوں نے بردوان سے ایک بڑی جماعت دہلی مرکز کے لئے تیارکرلی تھی ،مجھ پر زور تھا کہ میں چالیس روزکو سات چلے بنالوں ،مگر میں اس کے لئے آمادہ نہ ہوسکا۔
مجھے جماعت کے طریقۂ کار،اس کے رجحانات اوراس کے مشاغل سے احساس ہورہا تھا کہ اب تک میں نے جو علم اساتذہ کی خدمت میں حاصل کیاہے،وہ اس کے مطابق نہیں ہے۔مجھے بکثرت انحراف محسوس ہوتاتھا،میں جب اس کا تذکرہ امیرصاحب سے