’’آپ لوگ ایک معمولی سی غلطی پر ہنس رہے ہیں ، یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ اس تازہ وارد طالب علم نے کس جرأت کے ساتھ اپنی بات ادا کی ، آپ لوگوں سے تو کچھ نہ ہوسکا۔‘‘ مولانا کی آواز سے درسگاہ میں ایک سناٹا طاری ہوگیا۔
مولانا کا اندازِ تدریس:
مولانا وحید الزماں صاحب علیہ الرحمہ کادماغ مجتہدانہ تھا، وہ ہر میدان میں اپنے اجتہاد سے ایسا راستہ اختیار فرماتے جو آسان بھی ہوتا اور مختصر بھی ! مولانا نے عربی زبان میں انشاء وتکلم کی مشق اور عربی زبان وادب میں بے تکلف مہارت پیدا کرنے کے لئے اپنے آپ کو مامور بلکہ وقف کررکھاتھا ، ان کا رہائشی کمرہ اور ان کی درسگاہ بظاہر خطۂ عرب کا ایک حصہ معلوم ہوتی تھی ، وہاں داخل ہوتے ہی مولانا کے خلوص اور ان کی محنت اور لگن کے باعث طلبہ نہ صرف عربی میں لکھنے اور بولنے لگتے بلکہ عربی ہی میں سوچنے بھی لگتے ۔ مولانا کااندازتدریس بھی مجتہدانہ تھا، طلبہ سے عربی زبان میں ان کی استعداد کے اعتبار سے کبھی مختصر اور کبھی طویل جملوں میں سوال کرتے ، اور جواب میں طلبہ نعم اور لا کے ساتھ ان جملوں کو دہراتے ، اس طرح فصیح عربی زبان خالص عربی لہجے میں بولنے کی مشق ہوتی تھی ، اور ہر طالب علم کو دماغ حاضر رکھنا پڑتا تھا کہ مولانا کی زبان سے نکلا ہوا کوئی کلمہ جواب میں رہ نہ جائے ،روزانہ اس طرح مشق ہوتی رہتی ۔ مولانا کے درس میں طلبہ نہایت ذوق وشوق سے حاضر رہتے ، ان کا درس اس درجہ دلچسپ ہوتا کہ پورا گھنٹہ گذر جاتا اور وقت کا احساس نہ ہوتا جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کہ عربی انشاء وتکلم کے لئے مولانا نے تین درجے قائم کررکھے تھے ۔ صف اول۔صف ثانوی، صف نہائی ۔ صف اول میں اردو تکلم کی گنجائش زیادہ تھی ۔ صف ثانوی میں عربیت چھائی ہوئی ہوتی ، اردو زبان کبھی ضرورت پر استعمال ہوتی ، اور صف نہائی میں اردو کا سرے سے گذر ہی نہ ہوتا۔ ہم لوگ ’’ صف ثانوی‘‘ میں تھے ، مولانا عموماً عربی زبان میں درس دیتے ، وہ زبان فصاحت وبلاغت کے ساتھ اتنی سہل ہوتی کہ لفظ لفظ طلبہ کے ذہن نشیں ہوتا رہتااور طلبہ انھیں اپنی عام گفتگو میں بے تکلف استعمال کرتے۔