۱۹۷۱ء کا سیلابِ عظیم
اگست ۱۹۷۱ء کے اواخر میں ہمارے علاقے میں ایک عظیم اور ہیبت ناک سیلاب آیا ، ہمارا گاؤں دو طرف سے ٹونس ندی کی آغوش میں ہے ، یہ ندی ہمارے گاؤں میں شمال مغرب سے آئی ہے ، گاؤں کا پورا مغربی علاقہ اس کے دائرے میں ہے ، وہ مغربی حصہ میں شمال سے چل کر جنوب میں چلی گئی ہے، پھر وہاں سے پورب کی جانب مڑ گئی ہے ، اس طرح جنوبی حصہ بھی اس کی زد میں ہے ، پھر وہ آگے بڑھتی ہوئی محمد آباد ، پورہ معروف ہوتی ہوئی مئو چلی گئی ہے، جب سیلاب آتاہے ، تو وہ گاؤں کو چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے ، اور گاؤں جزیرہ بن جاتا ہے ، میرے بہت بچپن میں جبکہ میری عمر ۴؍ سال کی تھی ۱۹۵۵ء میں ایک بڑا سیلاب آیا تھا ، مجھے وہ سیلاب ذرا ذرا یاد ہے ، گاؤں کے بڑے بوڑھے لوگ اس کا تذکرہ بکثرت کرتے تھے ۔ ۱۹۷۱ء میں جو سیلاب آیا وہ کم وکیف کے اعتبار سے اس کے برابر یا اس سے کچھ بڑھ کر تھا ، گاؤں کی حفاظت کے لئے ہر طرف باندھ باندھے گئے تھے ، یہ سیلاب کم وبیش ڈیڑھ ماہ یکساں برقرار رہا ، سارا گاؤں اس سے بچاؤ کے انتظام میں مشغول رہا ، رات دن باندھ کی حفاظت کے لئے پہرہ دیا جاتا تھا کہ مبادا کوئی چوہا یا کوئی دشمن باندھ کاٹ دے گا ، تو دم کے دم میں پورا گاؤں غرقاب ہوجائے گا ، اس پہرہ اور اس کے انتظام میں گاؤں کے نوجوانوں کے دوش بدوش بلکہ کچھ آگے بڑھ کر میں بھی حصہ لیتا تھا ، میں نوجوانوں میں دوڑتاپھرتا تھا ، ان کی حوصلہ افزائی کرتا ، اﷲ رسول کی باتیں انھیں سناتا، ان کی تکان کو دور کرتے ہوئے ٹوٹتی ہوئی ہمت کو از سر نو بلند کرنے کی جدوجہد کرتا ، اس وقت نوجوانوں میں میری مقبولیت ومحبوبیت بہت ہوچلی تھی ، جس طرف نکل جاتا نوجوانوں میں ایک تازہ جوش وحوصلہ پیدا ہوجاتا۔یہ سیلاب ڈیڑھ ماہ تک جمارہ گیا، ہر طرف پانی ہی پانی تھا ، گاؤں کے کنارے سے کشتی چلتی اور محمدآباد یا خیرآباد کی آبادی میں جاکر رکتی، یہ تین