پریشانی رہاکرتی تھی، اورمیں اضطرابی کیفیت میں الٹتاپلٹتارہتاتھا، اس سے مجھے نجات مل گئی خداکی محبت دل میں توتھی ہی اب محبت کے ساتھ اعتماد وتوکل کا عنصربھی گھل مل گیا، اب دنیااوراسباب دنیا کی فکر سے بالکلیہ آزادی نصیب ہوگئی،میں اپنے گردوپیش دیکھتاکہ لوگ معاش کے مسئلے میں پریشان حواس باختہ ہیں ،اورمیں اپنے دل کو دیکھتا تواسے بالکل مطمئن اوربے فکر پاتا، الحمدللہ جوکیفیت اس وقت پیدا ہوئی وہ ہمیشہ برقرار رہی۔
تدریسی ملازمت کی ایک کوشش اور ناکامی
رمضان کا مہینہ جس کے عشرہ اخیرہ میں مَیں نے اعتکاف کیا تھا ، گزرا تو خیال ہوا کہ حفظ کی تکمیل ہوچکی ہے ، کہیں تدریس کے لئے سلسلۂ جنبانی کرنی چاہئے ، فارغ ہوئے ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے ، اب شاید کوئی مدرسہ قبول کرلے ۔ میرے استاذ حضرت مولانا محمد مسلم صاحب علیہ الرحمہ نے مدرسہ دینیہ غازی پور کے مہتمم جناب عزیز الحسن صاحب صدیقی سے میرے متعلق بات کی ، دونوں میں تعلق بہت تھا ، مولاناپر صدیقی صاحب کو کافی اعتماد تھا ، انھوں نے قبول کرلیا ، مولانا نے مجھے ایک خط لکھ کردیا کہ سامان لے کر غازی پور چلے جاؤ، بات مکمل ہوچکی ہے ۔میں نے اپنے اساتذہ سے دعائیں لی، سب نے خوشی کا اظہار کیا ، میں ساز وسامان لے کر غازی پور کے لئے روانہ ہوا، شام کو پہونچا ، عزیز الحسن صاحب سے ملاقات ہوئی ، میں مطمئن تھا کہ یہاں سب بات طے ہوچکی ہے ، میں پہونچوں گا اور وہاں کا ایک فرد بن جاؤں گا ۔ عزیز صاحب نے اولاً خوشی کا اظہار کیا ، مولانا سے گفتگو کا ذکر کیا ، پھر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ان سے گفتگو کافی پہلے ہوئی تھی ، آپ کا انتظار تھا ، آپ کے آنے میں تاخیر ہوئی تو کوپاگنج کے ایک صاحب سے بات کرلی گئی ،وہ کل آجائیں گے ، یہ سن کر صدمہ ہوا، مگر کیا کرسکتا تھا ۔ میں سوچنے لگا کہ آج میں سازوسامان لے کر گاؤں سے خوش خوش مطمئن نکلا ہوں ، کل بوریہ بستر لپیٹے گاؤں میں داخل ہوں گا تو میرا کیا حشر ہوگا؟ لوگوں کی نگاہِ طعن اور زیر لب زہر خند کا مقابلہ کیونکر کروں گا، مگر مجبوری تھی ، مجھے واپس ہونا ہی تھا۔