درجات تک تعلیم ہونے لگی ، میں تبلیغی چلے سے واپس آیا اور گھر رہنے لگا ، تو متعدد بار جون پور مولاناکی خدمت میں حاضری دی ، مولانا کی وسعت ظرفی تھی کہ انھوں نے اپنے اس خطاکار شاگرد کو کبھی دھکا نہیں دیا ، نہ کبھی برا بھلا کہا۔
اس دوران ایک مرتبہ مدرسہ قرآنیہ میں حاضر ہوا، تو ایک بڑے عالم وواعظ جن کی شانِ خطابت مشہور ومسّلم تھی ، تشریف فرما تھے ، ان کی مجلس میں ا زراہ سعادت ملاقات وزیارت کے لئے پہونچا،جب تعارف ہوا تو انھوں نے اتنے سخت کلمات نہایت ہی نازیبا اور کرخت لہجے میں کہے کہ میں سہم گیا ، بلکہ میرے دل کے ٹکڑے اڑ گئے ، وہ بہت بڑے تھے اور میں بہت چھوٹا تھا ، ادب مانع رہا ، اور گنہگاری کے احساس نے مشتعل ہونے نہیں دیا ، ورنہ دل ودماغ میں جوابی کلمات موجیں مارنے لگے تھے ، میں خاموشی سے وہاں سے اٹھ آیا ، مگر طبیعت بے چین تھی ، دل تھرارہاتھا ، نہیں رہاگیا تو میں نے بے اختیار قلم اور کاغذ کا سہارا لیا، اور ان کے نام ایک عریضہ لکھا ،جو باریک خط میں فل سکیپ کے چار صفحے پر مشتمل تھا ، میں نے اس میں تفصیل سے اسٹرائیک کے اسباب وعلل کو بیان کیا، اور یہ کہ طلبہ کتنے گنہگار اور کتنے بے گناہ تھے ؟ اور یہ کہ اکابر نے اس سلسلے میں جو کچھ کیا وہ عقل و شریعت کی میزان پر کتنا پورا اترتا ہے ؟ اور صرف طلبہ کو ملامت کرکے اپنی تسلی کرلینا کافی ہے ، یا خود اپنے طرز عمل پر بھی غور کرنا چاہئے ؟ غرض ایک تفصیلی خط لکھ کر ان کے حوالے کردیا ، انھوں نے پڑھ کر کیا اثر لیا ، اس کا فوری طور پر علم نہیں ہوا، کیونکہ انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا ،اور جواب کیلئے میں نے لکھا بھی نہ تھا ، ہاں یہ دیکھا کہ اس واقعہ کے دوسال کے بعد میری ان سے ملاقات ہوئی تو بہت مہربان اور قدردان تھے ، اس کا تذکرہ مدرسہ دینیہ غازی پور کی مدرسی کے ذکر میں آئے گا۔ ان شاء اﷲ
مولانا عبد الباطن صاحب
اس وقت طبیعت بے کیف ہوئی ،تو اسی دن یا دوسرے دن جونپور کے علماء ومشائخ