طورپرکچھ کتابیں پڑھایاکرتاتھا مگر اس میں باقاعدگی نہ تھی،عربی چہارم کے ایک طالب علم نے ندوے کی منثورات کے کچھ اسباق پڑھے تھے ،بعض طلبہ نے ہدایۃ النحو کے کچھ اسباق پڑھے، بعض چھوٹے طلبہ نے ابتدائی فارسی وعربی کی کتابیں پڑھیں اس سال تعلیم شروع ہونے کے بعدمجھ سے بڑی عمر کے ایک طالب علم میرے پاس آئے اورکہاکہ مولانازین العابدین صاحب نے فرمایاہے کہ مقامات حریری اورترجمہ کلام پاک آپ سے میں پڑھ لیاکروں ،مجھے تعجب ہواکہ مولانا نے یہ حکم کیونکر دیا،انھوں نے مزید وضاحت کی کہ میراامتحان داخلہ مولانانے لیا تھا، میں نے مقامات اورترجمہ کلام پاک نہیں پڑھاتھا ، مولانا نے فرمایاکہ تم پنجم کی جماعت میں چل سکتے ہو مگر شرط یہ ہے کہ مقامات حریری اورترجمہ پڑھ لو ،اب اسباق شروع ہوئے تو مولانا سے میں نے عرض کیا کہ آپ پڑھادیں انھوں نے آپ کا نام لیا، انھیں آپ پر اعتماد ہے، میں نے کہا کہ میں عربی چہارم کا طالب علم ہوں اورآپ پنجم کے،کہنے لگے اس سے کچھ نہیں ہوتا میں بے تکلف آپ سے استفادہ کروں گا، یہ دونوں کتابیں مولانا ہی کے یہاں زیر درس تھیں ، میں ان کے یہاں پڑھتا تھا، اور دوسرے وقت میں انھیں پڑھاتاتھا، اوران کا بھی کمال تھا کہ طالب علمانہ آداب کے ساتھ پڑھتے تھے،حالانکہ عمر اوررتبے دونوں میں مجھ سے بڑھے ہوئے تھے،یہ سلسلہ تقریباً پورے سال چلتارہا۔
قاضی اطہرمبارک پوری علیہ الرحمہ سے تلمذ
یہ سال میرے عربی تحریر وتقریر کے ذوق کا سال تھا،اس موضوع پر میں بہت کوشش اورمحنت کرتاتھا،عربی ادب کی جدید مطبوعات جن تک میری رسائی ہوتی بغور پڑھتا، تراکیب واسالیب اورتعبیرات کو اخذ کرنے کی کوشش کرتا، عربی میں مضامین لکھتا چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ۱۵؍ اگست یوم آزادی پر مدرسہ میں ایک جلسہ ہونے والاتھا، اس کیلئے میں عربی میں ایک مقالہ تیار کیاتھا، اس وقت میں جمعیۃ الطلبہ کانائب ناظم تھا ،انجمن کے پروگراموں کے اعلانات نائب ناظم کی ذمہ داری تھی، میں وہ اعلانات عربی میں لکھاکرتا۔
اس وقت مشہور مورخ وادیب حضرت مولانا قاضی اطہر مبارک پوری علیہ الرحمہ بمبئی