طرف سے آواز آئی وعلیکم السلام ، کون؟ اتنا سننا تھاکہ مولوی صاحب موصوف نے دروازہ کھول دیا ، دیکھا کہ ایک بہت دبلا ، لاغر ونحیف نوجوان طالب علم ، جس کا بچپن نوجوانی سے ہم آغوش ہورہا ہے ، اکڑوں بیٹھا ہوا ، اور خود کو ایک رومال سے باندھے ہوئے کتاب سامنے کھولے ہوئے منہمک ہے ، ہم اس میں خلل انداز ہوگئے تھے ، وہ بالکل تنہا تھا ، البتہ متعدد کتابیں اس کے دائیں بائیں اور سامنے بکھری ہوئی تھیں ، میں ایک نظر دیکھ کر ٹھٹکا ، یہ تو میرے ساتھی ، صف ثانوی کے طالب علم بدر الحسن دربھنگوی ہیں ، ان کے مطالعہ کی حالت قابل رشک تھی ، رات کتابوں میں گزارنے والے ، سب سے الگ تھلگ ، میں نے جی میں کہا پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں ۔ میرے جگر میں ٹھنڈک پڑی کہ اب بھی علم کی راہ میں کھپنے والے، جان کھپانے والے موجود ہیں ، میں دل میں ایک نیا حوصلہ اور پُرجوش ولولہ لے کر لوٹا۔
یہ وہی بدرالحسن ہیں ، جو بعد میں دار العلوم دیوبند میں عربی ادب کے استاذ ہوئے ، ’’ الداعی‘‘ عربی رسالہ کے مدیر ہوئے ، دار العلوم میں انقلاب کے بعد کویت چلے گئے اور وہاں اپنی علمی قابلیت ولیاقت کا لوہا منوارہے ہیں ۔
یہ اس رات کی آخری منزل تھی ، بدرالحسن سے اس وقت بے تکلفی نہ تھی ، مگر کچھ دیر وہاں بیٹھے ، پھر فجر کی اذان سے کچھ پہلے لوٹ کرمدرسہ کی چہار دیواری میں آگئے۔
ایک طالب علم کی تقریر اور اس سے تاثر:
اسی دوران ایک دن صدر دروازے پر علان آویزاں ہوا کہ دار الحدیث فوقانی میں کسی خاص موضوع پر طلبہ کا پروگرام ہے، غالباً جمعہ کے دن یہ پروگرام تھا،کیا تھا؟ اب بالکل یاد نہیں ، میں بھی شوق سے حاضرہوا، مجھے جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارکپور ہی سے تقریر وخطابت کاایک گونہ ملکہ ہوگیا تھا ۔ میرا شمار اوسط درجہ کے مقررین میں تھا ۔ دل میں البتہ حوصلہ کی فراوانی تھی ، ایک چھوٹے ماحول سے بڑے، بہت بڑے ماحول میں پہونچا تھا ، میں سوچا کرتا تھا کہ دار العلوم کے طلبہ کی کیا شان ہوگی؟ میں جس طالب علم کو دیکھتا ، یہی سوچتا تھا کہ