باتوں میں شعروادب کے رموز ونکات بھی بیان کرجاتے تھے ، اس سے فہم سخن کی دنیا وسیع ترہوتی جارہی تھی اس دلچسپی کے باوجود بے دلی کی کیفیت باقی رہی۔
ادیب ماہر کا امتحان
اس بے دلی نے طبیعت کو ادھر ادھر بھٹکایا،امروہہ میں شعروادب کا ذوق بہت عام تھا مدرسہ کے ایک ممبر حکیم محمد احمدصاحب بڑے پائے کے شاعر تھے، اساتذہ میں ان کا شمار تھا ہمارے مولانا ان کے یہاں پہونچتے تو شعروشاعری کی بہار آجاتی وہ جہاں شعر بہت اچھے کہتے تھے وہیں خوب سمجھتے بھی تھے ،شعر کے عیب وہنر کی پرکھ خوب رکھتے تھے میں نے ان کے یہاں فناؔ نظامی کو ادب سے بیٹھے اور ادب سے گفتگو کرتے دیکھا ہے مدرسہ میں ایک نابینا استاذ جناب شہبازؔ امروہوی ، بے حد قادر الکلام اورپر گوشاعر تھے،ان کا کلام پر کیف ظرافت سے معمور ہوتا،مگرظرافت کے پیرائے میں عمدہ اخلاق کی تلقین کرتے تھے امروہہ میں جمعہ کے روز نعتیہ مشاعرے خاص خاص ارباب ذوق کے یہاں ہوتے، مختصر سی مجلس ہوتی اچھے شاعر اورسخن فہم سامعین ہوتے دوزانو نشست ہوتی،کوئی ننگے سرنہ ہوتا، ادب واحترام کے تمام لوازم کے ساتھ تازہ نعتیں سنائی جاتیں ،نعت کی مجلسوں میں مجھے بارہاشریک ہونے کا اتفاق ہوا، اس ماحول نے ایک مرتبہ علی گڑھ کے اردو ادب کے امتحان کی طرف مائل کردیا ادیب کا امتحان میں دے چکاتھا، ادیب ماہر کا فارم بھردیا، میرے ساتھ مولانا کے صاحبزادے حافظ محمدارشد نے بھی فارم بھرا، حافظ محمدارشدمولاناکے بڑے صاحبزادے تھے،یہ بھی ذہانت اورحاضر جوابی کے پتلے تھے ،مگر حالات نے ان کی ذہانت کو منفی ذہانت بنادیاتھا، درس میں اورتعلیم میں اس ذہانت کا ظہور نہ ہوتا ،تنقید وتبصرہ ،باتوں کی کمزوریوں پر گرفت ، الزامی جوابات کی تیزی میں طاق تھے ۔حافظ کیسے تھے یہ تونہیں معلوم ،مگر قرأت بہت عمدہ تھی قرآن پڑھتے تو سماں باندھ دیتے،ادیب ماہر کا فارم انھوں نے بھی بھرا، اس کے لئے مطالعہ کا سلسلہ شروع ہوا، اس کی تیار ی کیلئے ایک لائبریری تھی وہاں سے کتابیں لالاکر ہم لوگ پڑھا کرتے، میں تو پڑھتا اورمولوی ارشد اس کی کمزوریوں کا نجیہ ادھیڑتے۔