میں شامل ہونے کی اجازت چاہی،مجھے کیا اعتراض ہوسکتاتھا ،سب طلبہ میری طرف آگئے میں نے محنت سے کتابوں کامطالعہ شروع کیا، مگر جب بنیاد ہی درست نہ تھی تو دیوار کیا سیدھی ہوتی، شرح تہذیب اورقدوری تونکل جاتی ،کافیہ میں بہت پریشانی ہوتی، ٹھکانے سے پڑھی توتھی ہی نہیں ،قاعدے سے سمجھ میں بھی نہ آتی ، اورسمجھاناتو اورمشکل تھا، مجھے اپنی حماقت پر بہت ندامت ہوئی ،اللہ کے حضور توبہ کیا، اورعہد کیاکہ آئندہ پوری محنت کو کام میں لاؤں گا، کافیہ کی جتنی شرحیں مل سکیں انھیں دیکھنے کی کوشش کرتا مگر ان سے میراکام نہ چلتا ،مدرسہ کے کتب خانہ میں کافیہ کے فارسی حاشیہ شریفیہ کا عربی میں ترجمہ تھا،حاشیہ شریفیہ کی فارسی بہت ادق تھی، نیز کافیہ کے حاشیہ پر اس طرح چھپاتھا کہ متن کہیں اورحاشیہ کسی اورصفحے پر ،اس سے استفادہ بالکل نہیں ہوسکاتھا،عربی میں اس کا ترجمہ مشہور فلسفی اورمنطقی عالم جو عربی کے بڑے ادیب بھی تھے، حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی کے صاحبزادے مولانا عبدالحق صاحب خیرآبادی نے کیاتھا، جس کا نام تسہیل الکافیہ ہے، یہ ترجمہ بہت سہل تھا اس کی عربی بے تکلف سمجھ میں آجاتی تھی،میں نے اسے کتب خانے سے نکال لیا ،اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا ،اکثر مقامات اس سے حل ہوگئے،نہ صرف حل ہوئے بلکہ بیان کرنے کا ملکہ بھی اس کی برکت سے حاصل ہوا۔
غیبی مدد
تسہیل الکافیہ کی مددسے کافیہ کا تکرارآسان ہوگیا،لیکن تکرار جب حال کی بحث تک پہونچا اورمیں نے اس کا مطالعہ شروع کیا تو ایسا لگا،جیسے میں نے یہ بحث پڑھی ہی نہیں ، مطالعہ کرتے کرتے دماغ تھک گیا،جس طرح تھکا بیل ہل جوتتا جوتتا بیٹھ جاتاہے ، اور ہزار تدبیروں کے بعد بھی نہیں اٹھتا،بعینہٖ وہی حال میرا تھا۔دماغ تھک کر بیٹھ گیاتھا ،اس کے سامنے حروف آتے تھے مگر کچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھا ،ظہر کی نمازکے بعد سب طلبہ کے درمیان اس بحث کو سمجھاناتھا ، وہ صاحب جو بیمار ہوگئے تھے وہ بھی اس تکرار میں آکر لیٹے رہتے تھے،جب میرا دماغ تھک گیا تو میں کتاب لے کر ایک ایسی مسجد میں چلاگیا ،جواہل حدیث