مولوی صاحب کو جہاد کرنا پڑا ، پھر بالآخر انھوں نے میدان جہاد میں ہی جان دے دی ۔ ان پر میں نے بہت پہلے ایک مضمون لکھاتھا ، جو سہ ماہی المآثر مئو میں چھپا ، پھر ضیاء الاسلام شیخوپور میں شائع ہو ا، اور اب میری کتاب ’’ کھوئے ہوؤں کی جستجو۔۔۔۔۔‘‘ میں شامل ہے ، وہ اس لائق ہے کہ اسے اس آپ بیتی کا بھی جز بنایا جائے ، ضمیمے میں ملاحظہ ہو۔
ان تینوں نے باتوں باتوں میں درخواست کرڈالی کہ اب پھر جہالت کا غلبہ ہورہا ہے ، بدعتی مولوی دھاوا مارتے رہتے ہیں ، اپنے علماء میں سے بعض حضرات پہونچتے ہیں ، مگر صرف دھان کی فصل کے سیزن میں چندے کے لئے ۔ اگر آپ زحمت کریں اور رمضان کی تعطیل میں وہاں چلیں تو آپ سے امید ہے کہ دین کاکام ہوگا ، میری طبیعت بے چین ہوئی ، لیکن میرے دل میں میسور کی یاد سمائی ہوئی تھی ، وہاں سے میں کرائے کی رقمیں لے کر آیاتھا ، میں نے طے کررکھاتھا کہ رمضان کی تعطیل ہوتے ہی میسور جاؤں گا تاکہ کرائے کی رقمیں واپس کروں ، اس کے متعلق میں متعدد خطوط میسور کے اہل تعلق کو لکھ چکا تھا ، وہ لوگ شدت سے منتظر تھے ، اور پُر امید تھے کہ مجھے میسور ہی کو مستقر بنانا ہے ، وہاں سے ایک وفد بنارس آنے کی تیاری کررہاتھا ، میں نے اصرار کرکے باز رکھا ، اور پختہ وعدہ کیا کہ میں شعبان میں ان شاء اﷲ ضرور آؤں گا۔
میں نے معذرت کی کہ تم لوگوں کے یہاں جانے کا اس وقت موقع نہیں ہے اور بعد میں معلوم نہیں موقع ملے کہ نہ ملے ، اس لئے وعدہ نہیں کرسکتا ، مگر یہ تینوں طلبہ میرے دل میں اتر گئے ، میں نے ان کی تربیت اس انداز سے شروع کردی کہ اپنے یہاں جاکر یہ دین کے مضبوط سپاہی اور داعی بن سکیں ۔ آپ بیتی میں ان تینوں کا تذکرہ بھی بکثرت آئے گا۔
ایک اورمسکین طالب علم :
تعلیم کے ابتدائی ایام میں جب کہ مدرسہ میں داخلہ مکمل ہوچکا تھا اور تعلیم باقاعدگی کے ساتھ شروع ہوچکی تھی ، میں اپنے کمرے میں بیٹھا تھا ، غالباً جمعہ کا دن تھا ، ایک مسکین لڑکا ننگے سر ، لنگی باندھے ،پھٹی پرانی قمیص پہنے ، ننگے پاؤں ، سلام کرکے کمرے میں داخل