(۳)
مجھے تقریر وتحریر سے کچھ زیادہ دلچسپی نہ تجھی ، یہ تو مفتی صاحب کی شخصیت کااثر اور ان کی محبت تھی کہ میں اپنے ذوق ومزاج کے خلاف لیکن ذوق وشوق سے ان پروگراموں میں شریک ہوتا تھا ، واقعہ یہ ہے کہ محبت میں بڑی طاقت ہے ، اس طاقت کے زیر اثر آدمی اپنی طبیعت کے خلاف کتنے کام انجام دے لیتا ہے ، مجھے اصل ذوق پڑھنے اور پڑھانے کا تھا۔ پڑھنے کے لئے مفتی صاحب کا کتب خانہ تھا اور پڑھانے کے لئے مدرسہ کے طلبہ تھے۔عربی چہارم کی جماعت میں دویا تین طلبہ تھے اور وہ صاحب استعداد نہ تھے ، ان سے مجھے زیادہ دلچسپی نہ ہوئی ، عربی سوم کی جماعت بڑی تھی اور اس میں طلبہ بھی خاصے ذی استعداد اورحوصلہ مند تھے ، اس جماعت کے دو سبق میرے پاس تھے ۔ ایک قدوری اور دوسرے شرح تہذیب ! میں نے اس جماعت پر بہت محنت کی اور ماشاء اﷲ محنت کے ثمرات اچھے ظاہر ہوئے ، اس جماعت میں دومقامی طالب علم تھے وسیم احمد اور عبد اﷲ ناصر ،عبد اﷲ ناصر بہت سنجیدہ اور متین تھا ، ساتھ ہی بہت خاموش!وسیم احمد میں محنت کرنے ، سمجھنے اور آگے بڑھنے کا جذبۂ بیتاب تھا ، اس نے بہت محنت کی ، کتابیں سمجھنے کی کوشش کی ، جو بات سمجھ میں نہ آئی ، اسے مکرر پوچھا ، اس طرح لسان سئول اور قلب عقول کی بدولت استعداد نکھرتی چلی گئی ، میں ایک سال کے بعد بنارس سے چلا گیا ، لیکن وسیم نے ربط باقی رکھا ، ملاقات اور مراسلت کا سلسلہ قائم رہا ، وسیم کے نام میرے بہت سے خطوط ہیں ، جن کی اس نے بڑی حفاظت کی ، عزیزم مولانا ضیاء الحق سلّمہ نے جب میرے خطوط جمع کرنے کا آغاز کیا تو وسیم کے یہاں سے ایک ایک پُرزہ ملا ۔ یہ تمام خطوط ’’ حدیث دوستاں ‘‘ میں شائع ہوچکے ہیں ۔
وسیم نے جامعہ اسلامیہ سے دار العلوم دیوبند تک پڑھنے میں کافی جدوجہد کی اور اس پورے عرصے میں خط وکتابت کے واسطے سے مجھ سے ربط قائم رکھا ، حق تعالیٰ نے فضل فرمایا ، فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ میں تدریس کے شعبہ میں خدمت کا موقع مل گیا، حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی کی نگرانی میں کامیابی کی منزلیں طے ہوتی رہیں ،