ہوئے کہنے لگے آپ لوگ کہاں پڑھاتے ہیں ، میں نے کہاپڑھاتے نہیں پڑھتے ہیں ، بولے کہاں ؟ ہم نے امروہہ کانام لیاانھوں نے تعجب سے کہاکہ امروہہ جیسی جگہ اتنے باصلاحیت طلبہ جو اساتذہ پربھی فوقیت رکھتے ہیں آپ لوگوں کو تودارالعلوم دیوبند میں ہوناچاہئے تھا، یہ سنناتھا کہ دل پر زخم سالگا ،یایہ کہئے کہ زخم کے ٹانکے کھل گئے، لیکن ہم لوگ سنبھل گئے، میں نے کہا ہاں زمانہ کی نیرنگیاں ہیں ، انھوں نے کہاکہ بجنورمیں میراایک مدرسہ ہے میں ابھی سے دعوت دیتاہوں ،فارغ ہوکر وہیں آجائیے، پھر اورباتیں ہوتی رہیں ،امروہہ قریب آگیاتو بڑے میاں نے فرمایاکہ آپ حضرات اپنا نام بتادیں ،میں نے کہا جانے دیجئے، مسافر ہیں ادھر سے آئے ادھر چلے گئے،کیا کیجئے گانام پوچھ کر مگر وہ بضد ہوگئے ،میں نے کہاجب نہیں مانتے توبتاناہی پڑے گا یہ طاہر حسین گیاوی اورمیں اعجازاحمد اعظمی!
یہ دونوں نام سننے تھے کہ بڑے میاں ایک دم گھبراکر کھڑے ہوگئے، میں نے کہاآپ گھبرائیے مت آرام سے تشریف رکھئے، وہ چپ چاپ بیٹھ گئے پھر ایک لفظ نہیں بولے، امروہہ گاڑی ٹھہری اورہم لوگ سلام کرکے اتر گئے اوروہ بے حس وحرکت پڑے رہے۔
(۵)تجارت اورناکامی
دارالعلوم کے حادثے کے بعد دل ایساٹوٹاکہ باقی زندگی مدرسوں میں بسرکرنے سے طبیعت سردہوگئی ہمارے دورے کے ایک ساتھی مولوی محمدشفیق تھے انھیں تجارت کاذوق تھا آپس میں گفتگو ہوتی ہی رہتی تھی انھوں نے تجارت کرنے کا مشورہ دیا، اس کے فوائد بتائے مجھے اس سے مناسبت نہیں تھی لیکن ان کے بتانے اورسمجھانے سے میں تیارہوگیا، ہمارے یہاں ہینڈلوم پر جوساڑیاں تیار کی جاتی ہیں ،شفیق نے کہاانھیں منگواو یہاں ان کی مانگ ہے میں نے والدصاحب کو لکھا انھوں نے ساڑیاں بھیج دیں بازار میں انھیں لے گئے، وہ فوراً بک گئیں اورنقد قیمت وصول ہوگئی پہلامعاملہ حوصلہ افزا تھا، اب نیت میں کچھ پختگی آچکی تھی امتحان سالانہ قریب تھا طے کیاگیاکہ بروقت تومعاملہ ملتوی رکھا جائے ،چھٹی کے بعد میں گھرجاؤں ،اسی وقت رقم بھی والدصاحب کے حوالے کردوں اورمزید ساڑیاں لے کر