اچھا مرکز بنے گا۔
وفات:
مولانا کی بیماری کی ابتداء تو آج سے ۹؍سال پہلے اس وقت ہوئی جب۱۴؍ ذی الحجہ ۱۴۲۴ھ جمعہ کوان کے جسم کے دائیں حصہ پر فالج کا شدید حملہ ہوا ،اس کے بعد صحت معمول پر نہیں آسکی ، لیکن وہ عزم وہمت کے پہاڑ تھے ، اسی حالت میں درس وتدریس، تصنیف وتالیف ،وعظ وتقریراور تربیت سالکین کا سلسلہ بدستور جاری رہا، لیکن گزشتہ سال جب گردے کمزور ہوگئے اور ڈائلیسس کا سلسلہ شروع ہوا، ضعف ونقاہت بہت بڑھ گئی ، درس وتدریس کا سلسلہ موقوف رہا،اور قیام مسلسل بمبئی میں رہا۔ امسال رمضان سے طبیعت قدرے بہتر ہوئی، تو شوال سے پھر ایک دو کتابوں کے پڑھانے کا سلسلہ رہا، جیسا کہ میں نے ابتداء مضمون میں لکھا کہــ’’جس دن آپ کا انتقال ہوا ہے یعنی ۲۸؍ستمبر شنبہ کو، اس دن بھی آپ نے دوکتابوں کا سبق پڑھایا ہے۔ ‘‘
مولانا ۲۸؍ ستمبر شنبہ کو مغرب کے وقت تک بالکل معمول کے مطابق رہے ، نمازوں کیلئے مسجد میں حاضر ہوئے ، عصر بعد کی مجلس میں چائے بھی معمول کے مطابق پی، مغرب کے بعد طبیعت میں اضمحلال پیدا ہونا شروع ہوا، عشاء کے وقت دومرتبہ قے ہوئی اس کے بعد بلڈ پریشر بہت لو ہوگیا۔ فوراً مئو لے جایا گیا، اس وقت تک ہوش میں تھے ، اور ہونٹ مسلسل ہل رہے تھے جیسا کہ ذکر خفی کے وقت ان کا معمول تھا ، ڈاکٹروں نے اپنے حساب سے بہت کوشش کی مگر وقت پورا ہوچکا تھا ، گیارہ بجے ہاسپٹل پہونچے تھے اور ساڑھے گیارہ بجے آپ مالک حقیقی سے جاملے ۔ہجری سن کے اعتبار سے مولانا کی عمر ۶۳؍سال ،۷؍ ماہ تھی۔
جسد خاکی مدرسہ سراج العلوم ،چھپرہ لایا گیا، دوسرے دن بعد نماز ظہر تین بجے نماز جنازہ ادا کی گئی، نماز جنازہ مولانا کے صاحبزادے مولانا محمد عابد صاحب نے پڑھائی۔ مدرسہ کے احاطہ میں مسجد کے زیر سایہ اس امانت کو ہمیشہ کیلئے زمین کے سپرد کردیا گیا۔ اس کوردہ دیہات میں جنازہ میں تیس ہزار کا مجمع ہوگیا تھا ، جس میں اکثریت مدارس کے علماء وطلباء کی تھی، یہ عند اﷲ مقبولیت اور عند الناس محبوبیت کی دلیل ہے۔