چوتھا باب
جامعہ احیاء العلوم مبارک پور میں
پہلا سال (عربی دوم)
شعبان کے اخیر میں حضرت الاستاذنے جب اسباق بندکئے ،توحکم دیاکہ اگلے سال مبارک پور چلے جاؤ، وہاں اچھی تعلیم ہوتی ہے ،بھیرہ سے وہاں کے تعلقات بھی زیادہ ہیں اس وقت میری عمر ۱۳؍سال کی ہوچکی تھی، لیکن چونکہ گھر اورگاؤں سے باہر اس وقت تک قدم نکالانہیں تھا اس لئے طبیعت کا عجیب رنگ ہورہا تھا،گھرکاچھوٹنا شاق ہورہا تھااور نئے میدان علم میں داخل ہونے کی خوشی حاصل ہورہی تھی رمضان کا مہینہ تو خوابوں میں گزرگیا، شوال ہوتے ہی مدرسہ جانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں ،میرے ایک دوست حافظ ابوبکر صاحب مجھ سے ایک سال پہلے سے وہاں درجہ ٔ حفظ میں داخلہ لے کر پڑھ رہے تھے ،انھیں کو میں نے رہبر بنایا، ان سے وہاں کے حالات پوچھے ،وہاں کا ماحول پوچھا، انھوں نے اطمینان دلایا ،گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں ہے سب اپنے لوگ ہیں اساتذہ کے بارے میں دریافت کیاجو کچھ جانتے تھے بتایا ،اساتذہ سب اچھے ہیں لیکن ان میں زیادہ تعریف مولانا محمد مسلم صاحب علیہ الرحمہ کی کی، ہمارے گاؤں کے ایک اورصاحب مولانا شمس الحق صاحب …جو اب جوگیشوری بمبئی میں امام ہیں … اس وقت وہاں پڑھتے تھے،اسی سال وہاں کی تعلیم مکمل کرکے تکمیل فضیلت کے لئے دیوبند چلے گئے تھے ۔
۸؍شوال کو بتایاکہ مدرسہ کھلتاہے اسی روز جاکر داخلہ کرالینا چاہئے ،تاکہ بعد میں دقت نہ ہو، میں اورحافظ ابوبکر ۸؍ کو مدرسہ پہونچ گئے ،ناظم صاحب مولانا عبدالباری