اہل انتظام نے میرے ذمہ لگائی تھی۔
میرے لئے باضابطہ تدریس کا یہ پہلا تجربہ تھا ، طالب علمی کے زمانے میں کتابیں میں نے سمجھ کر پڑھی تھیں ، اور ہر کتاب کا ایک مدرس کی طرح تکرار بھی کرایا تھا ،اس لئے تدریس میں اور اس کے لئے مطالعہ میں مجھے بہت زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ زیر درس ہر ایک کتاب کا سرسری مطالعہ کافی ہوتا ۔ تفہیم مطالب کے لئے آسان سے آسان طرز اختیار کرتا ، طلبہ بآسانی سمجھ لیتے ، اس طرح پڑھاتا کہ انھیں تحصیل کا شوق پیدا ہوجاتا ، گھنٹے میں جو وقت درس وتفہیم کے بعد بچ جاتا اس میں پچھلے علماء وبزرگوں کا تذکرہ کرتا ، ان کی محنتوں کی داستانیں سناتا ، ترغیب وتشویق کے مضامین بیان کرتا ، اس سے طلبہ کو بہت دلچسپی ہوتی ، تذکروں اور سوانح کا مطالعہ چونکہ وسیع تھا ، بالخصوص علماء دیوبند کے حالات و واقعات سے بکثرت واقفیت تھی ، ان کے تذکرے زیادہ تر ہوتے ، بنارس میں ایک سال رہنا ہوا، وہاں کی یادیں متفرق طور پر لکھتا ہوں ۔
(۱)
بنارس کے رفقائے تدریس میں جن لوگوں سے ابتداء ً تعلق ہوا ، ان میں سب سے اہم اور سب سے مفید ربط وتعلق مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی سے ہوا ، مفتی صاحب مجھ سے تین چار سال پہلے فارغ ہوئے تھے ، فراغت کے بعد انھوں نے دار العلوم دیوبند سے افتاء کی تعلیم حاصل کی ، اور غالباً دوسال سے جامعہ اسلامیہ میں مدرس تھے ، ان سے ملاقات ہوئی تو ایسا محسوس ہوا کہ ہم میں کبھی اجنبیت نہ تھی ، بہت بے تکلفی ، بڑا خلوص، بے ساختہ محبت ، جیسے بہت پرانا تعلق ہو ، مفتی صاحب ایک نمونہ کے انسان ہیں ، میں ان سے بہت چھوٹا ہوں ، علم میں بھی ! عقل میں بھی ! ذہانت وذکاوت میں بھی ! مگر ایسا برتاؤ کیا کہ یہ فرق مٹ کر رہا ۔ مفتی صاحب مالتی باغ مدن پورہ کی مسجد میں امامت فرماتے تھے ، اﷲ تعالیٰ نے حسن سیرت وصورت کے ساتھ حسن صوت سے بھی نوازا ہے ، ان کی وجہ سے مسجد میں بڑی رونق آگئی ، جمعہ کی نماز سے پہلے تقریباً آدھ گھنٹہ ان کا وعظ ہوتا تھا ۔ یہ وعظ قرآن وحدیث