شادابی اور ہریالی کاسماں تھا ، نیچی نیچی پہاڑیاں سبزپودوں اور سرخ پھولوں کا لبادہ پہنے ہوئے کف گل فروش اور جمال جہاں آراء بنی ہوئی تھیں ، مگر مجھے اس وقت بس کا سفر راس نہ آتاتھا ، فضاکا حسن وجمال طالب چشم نظارہ تھا مگر میں دورانِ سر اور متلی میں مبتلا تھا ، کسی طرح اپنے کوسنبھالنے کی کوشش کرتا ہوا یونیورسٹی کے حلقے میں داخل ہوا، ایک وسیع وعریض عمارت کے سامنے بس رکی ، عبد الرشید کے ساتھ میں اترا ، یہ مسلم ہاسٹل تھا ، طلبہ نے بڑھ کر استقبال کیا، ہلکا پھلکا ناشتہ ہوا ، پھر دیکھا تو ایک ہال میں سب سراپا شوق بنے منتظر ہیں ۔ میں نے اﷲ کی وحدانیت ، رسالت کی ضرورت پر ایک بسیط تقریر کی ، اندازہ ہوا کہ طلبہ اس سے متاثر ہوئے ، تقریر کے بعد وہ ملاقات اور بات چیت کے لئے ٹوٹے پڑرہے تھے ، میں نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے یونیورسٹی کے کتب خانہ میں لے چلو ، طلبہ نے معذرت کی کہ آج اتوار ہے ، کل تشریف لائیے ، ظہر کی نماز تک میں وہاں رہا ، ظہر کے لئے اپنی مسجد میں آگیا۔
دوروز کے بعد کتب خانہ میں گیا ، مگر اس میں عربی فارسی اور اردو کی کتابیں بہت کم تھیں ، تاہم کئی گھنٹے میں اس میں رہا۔پھر ہر ہفتہ اتوارکو یہ معمول بن گیا، کہ میں مسلم دارالاقامے میں جاتا اورکسی ایک دینی موضوع پر تقریر کرتا ، اس طرح ان انگریزی خواں طلبہ سے خاصا ربط ہوگیا ، اورانھوں نے بھی بہت محبت کی ، ان تقریروں اورتعلقات کی وجہ سے ان طلبہ کی زندگی اور ماحول میں خاصا بدلاؤ آیا ، مگر میرا قیام دوتین ماہ ہی رہا ، پھر وطن واپسی کے بعد میں نہ جاسکا۔
پروفیسر غوث محمد مولوی:
برادر عزیز عبد الرشید برابر میرے پاس آتے جاتے رہے ،ایک روز دیکھا کہ اپنے ساتھ وہ ایک معمر بزرگ کو لارہے ہیں ۔ کہنے لگے یہ میرے استاذ ہیں ، یونیورسٹی میں عربی زبان کے پروفیسر ہیں ، آپ سے ملنے آئے ہیں ۔ میں نے ان کا خیر مقدم کیا ، وہ باتیں کرتے رہے، میں نے نام دریافت کیا، تو بولے ’’ غوث محمد مولوی ‘‘ میں نے ازراہ بے تکلفی کہا کہ