امتحان کی تیاری کما حقہ نہیں ہوسکی،البتہ ایک کتاب مسعودحسن رضوی ادیب کی ’’ہماری شاعری‘‘ مجھے مل گئی،یہ کتاب مجھے بہت پسند آئی اسے میں نے بار بار پڑھا، اور امتحان کی تیاری کامدار اسے ہی بنالیا، اردوشاعری کے تعارف وتنقید پر بہترین کتاب ہے اس کے مضامین پر میں بخوبی حاوی ہوگیا، جب امتحان کا وقت آیا تو تمام پرچے میں نے اسی کتاب کی مدد سے حل کئے تھے۔
امروہہ میں امتحان کا سنٹرکیاتھا؟ نقالی ،ہڑبونگ اوربددیانتی کا سنٹر تھا، نگراں حضرات جوابات الٹے سیدھے بلیک بورڈ پر لکھ دیتے طلبہ اسے نقل کرلیتے، یاکتابیں لے کر آتے اوروہیں بیٹھ کر نقل کرتے مجھے نقل کرنے کی کبھی عادت نہ تھی بڑی وحشت ہوتی میں اپنی کاپی پرسرجھکالیتا تو نگاہ بھی نہ اٹھاتا، میں نے ہر پرچہ تفصیل سے لکھ کرحل کیا، مضمون نگاری کا ملکہ تھا ہی ،امتحان کی کاپی نہیں ادیبانہ مضامین لکھے ،نہ میں نے کوئی نقل کی اورنہ کسی کو نقل کرائی صرف تنقید کے پرچے میں ایساہواکہ میں نے تفصیل سے جب لکھ لیاتوایک طالب علم میرے پاس آیا کہ مجھے بھی لکھوادو، میں نے اختصار کے ساتھ لکھوادیا ،اب ستم ظریفی ملاحظہ ہو،اس پرچے میں اسے امتیازی نمبر ملے اورمجھے نہیں ۔
جب نتیجہ آیاتو میری پوزیشن پہلی تھی اورارشد کی تیسری!
مدرسہ کا سالانہ امتحان
آہستہ آہستہ وقت کا کاروان آگے بڑھتا رہا،یہاں تک سالانہ امتحان کا وقت آگیا امتحان سے کوئی خاص دلچسپی باقی نہ رہ گئی مگر رسم توپوری کرنی ہی تھی ، امروہہ کے مولانا انصارالحق صاحب جو اس وقت مدرسہ شاہی مرادآباد کے مہتمم تھے،امتحان کیلئے تشریف لائے تھے ،امتحان کی کوئی خاص بات حافظے میں نہیں ہے، مولانانے امتحان کے معاً بعد جلسہ دستار بندی وتقسیم اسناد رکھا تھا، دستاربندی کیلئے امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالشکور صاحب علیہ الرحمہ کے صاحبزادۂ محترم مولانا عبدالسلام صاحب لکھنوی علیہ الرحمۃ کودعوت دی،اورتقریر کیلئے دہلی کے مولانا اخلاق حسین قاسمی مدظلہ کو، اس جلسے میں مولانانے مجھے