زندگی بسر ہوتی رہتی۔
ایک خاص واقعہ:
اس پُرسکون زندگی میں ایک مرتبہ اضطراب کی ہلچل مچی۔گھر میں مدرسہ کی طرف سے ملی ہوئی صرف دال روٹی پر اکتفا تھی ، گوشت ،ترکاری، تیل مصالحہ سے ہمارے برتن ناآشنا تھے ، لیکن ہنسی خوشی اوقات بیت رہے تھے ، غربت تھی ، مگر اس کا احساس نہ تھا ، نہ کوئی پریشانی اور دل تنگی تھی۔ا سی دوران مغرب کی نماز کے بعد عشا کے قریب مدرسہ میں میرے دو بہت عزیز دوست آئے ، ایک میرے مخدوم زادے ، میرے اخص الخاص محسن استاذ حضرت مولانا محمد افضال الحق صاحب مدظلہ…جنھوں نے اس وقت میرے سر پر دست شفقت رکھا تھا جب ہر طرف سے میں طمانچوں کا مستحق تھا اور طمانچے لگ بھی رہے تھے ، اس سنگین وقت میں انھوں نے اپنی آغوش میں پناہ بخشی تھی ، اس لئے ان سے، ان کی اولاد سے ، ان کے متعلقین سے مجھے اس وقت بھی ایسی محبت تھی اور اب بھی ہے کہ ان کی ہر خدمت میرے لئے باعث صد سعادت وہزار مسرت ہے… انھیں استاذ محترم کے فرزند گرامی تھے ، اور ان کے ساتھ ان کے ایک دوست تھے ۔میں دال روٹی کھاکر گھر سے آگیا تھا ، میں سہم گیا کہ ان عزیزوں کی خاطر داری کیونکر کروں ، ایک لمحہ تشویش میں مبتلا ہوا، پھر اپنے ایک طالب علم کو بلایا اور دریافت کیا کہ تمہارے پاس کچھ پیسے ہیں ، اس نے کہا جی ہاں ! میں نے کہا عشا کی نماز کے بعد بازار سے کھانا لے کر آؤ، مہمانوں کو کھلانا ہے ، پھر میں مطمئن ہوگیا، عشا کی نماز کے بعد بازار سے جو عمدہ کھانا مل سکتاتھا وہ لایا ، میں نے اپنے مہمانوں کی تواضع کی ، یہ وقت تو خیریت سے گزرگیا ، اب صبح ناشتے کی فکر سوار ہوئی ، جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی ، گھر میں کوئی سامان نہ تھا ، میں رات کو گھر آیا ، اہلیہ کو کچھ نہیں بتایا چپ چاپ بستر پر پڑگیا ، مگر فکر میں نیند کہاں آتی ، رات کو بارہ بجنے کے بعد میں نے بستر چھوڑدیا ، وضو کرکے نماز اور مناجات میں مشغول ہوگیا ، بڑے کرب اور درد میں یہ رات گزری، لیکن صبح ہوتے ہوتے دل میں ٹھنڈک پڑچکی تھی ، میں روزانہ کی عادت کے مطابق مدرسہ میں آیا ، اذان دی ، نماز پڑھی ،