پڑھاتے نہیں گھول کر پلاتے تھے، ہدایہ ثانی کا سبق حضرت مولانا زین العابدین معروفی کے پاس تھا،مولانابہت ذہین وفطین تھے،حافظہ ان کا بہت قوی تھا، اورمعلومات بہت وسیع رکھتے تھے، سبق کی تشریح مختصر الفاظ میں کرتے ،مگر بہت جامع کرتے ، مولانا کا رعب طلبہ پر بہت تھا ، سبق کا ناغہ کبھی نہ ہوتا۔ بہت اہتمام سے مطالعہ کرتے اور دلچسپی سے پڑھاتے۔
سلم العلوم فن منطق کی کتاب ہے ، اس سے انھیں بہت مناسبت تھی ، خوب پڑھاتے تھے ، سلم کے ختم ہونے کے بعد اس کی شرح ملاحسن پڑھائی ۔ اس سبق میں ان کی ذہانت کے جوہر خوب کھلتے تھے۔
حضرت مولانا محمد مسلم صاحب علیہ الرحمہ اور حضرت مولانا جمیل احمد صاحب مدظلہ کا تذکرہ پہلے گزرچکا ہے ،یہ دونوں اپنے رنگ میں منفرد تھے ،اور دونوں طلبہ کے درمیان معیار تھے۔
ایک ناگوار واقعہ:
اس سال جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور کی پُرسکون تعلیمی فضا میں ایک ناگوار حادثہ ایسا پیش آیا ، جس نے بہت دنوں تک تکدر کی گرد اُڑائی۔
ہوا یہ کہ طالب علموں کو ایک استاذ کی تدریس پر اطمینان نہ تھا ، ان میں کچھ دنوں تک چہ میگوئیاں ہوتی رہیں ،کان بھرے جاتے رہے ، پھر پارٹی بناکر ایک اجتماعی درخواست دارالاہتمام میں دے ڈالی کہ کتاب سمجھ میں نہیں آتی ہے ، اس لئے کتاب وہاں سے ہٹادی جائے ، پھر اس میں زور پیدا کرنے کے لئے ایک اور جماعت کو آمادہ کیا گیا ، اور اس سے بھی درخواست دلوادی گئی ۔ دار الاہتمام کی جانب سے معاملہ کی تحقیقات کرائی گئی ، اس کا نتیجہ کیانکلا وہ طلبہ کومعلوم نہ ہوسکا۔ پھر اﷲ جانے یہ معاملہ کیونکر مجلس شوریٰ تک پہونچ گیا، مجلس شوریٰ کا ہنگامی اجلاس ہوا ، جو رات بھر چلتا رہا ، صبح طلبہ کوبلاکر پوچھ گچھ کی گئی ، طلبہ بھی بھرے بیٹھے تھے ، گرم گرم بحثیں ہوئیں ، لیکن کتاب نہیں ہٹائی گئی ، اِدھر طلبہ بھی پھیکے پڑے،اُدھر استاذ کے دل میں بھی گرہ پڑی ، پھر سالانہ امتحان تک بڑی بے لطفی رہی ، یہ بڑا سنگین وقت تھا