تویہ سب حضرات اور بزرگ خاتون اللہ کے حضور پہونچ گئیں ،حق تعالیٰ انھیں جنت نصیب فرمائے ، میرادل ان کے احسانات سے جھکا ہواہے۔
دوپہر کے کھانے کیلئے جاتا تو مشہور بریلوی عالم اورمقرر مولانا مظفر حسین صاحب سے ملاقات ہوجاتی ،یہ ظفر ادیبی کے نام سے معروف تھے۔بریلویوں میں نسبتاً معتدل سمجھے جاتے تھے، کسی دیوبندی سے سلام کرنے سے ان کا نکاح نہیں ٹوٹتاتھا، مولانا عبدالستار صاحب کے مکان سے تھوڑا آگے ان کا مکان تھا یہ اشرفیہ میں پڑھاتے تھے ۔ایک خاص جگہ سے روزانہ ساتھ ہوجاتاتھا ان سے کتابوں کی باتیں ہوتیں ،مولانا ابوالکلام آزاد اور علمائے دیوبند کی کتابیں پڑھاکرتے تھے، اسی سلسلے میں باتیں ہوتیں ۔۱۴۱۰ء میں سفر حج میں جدہ میں ان سے ملاقات ہوئی اہلیہ کے ساتھ تھے اور آگے پیچھے کوئی نہ تھا ،میں نے بڑھ کر ملاقات کی تو پہچان گئے۔
مدرسہ میں آنے کے بعد سب سے زیادہ فکر مجھے شرح مأۃ عامل کی تھی۔ میں نے ناظم صاحب سے اس کے بارے میں گزارش کی انھوں نے فرمایا کہ تم بے فکر رہو،میں ا نتظام کردوں گا، پہلے تم کتب خانہ سے اپنی درسی کتابیں لے لو ۔اس سال حسب ذیل کتابیں ششماہی تک پڑھنی تھیں ،(۱) ہدایۃ النحو (۲)کبریٰ ،(۳) القرأۃ الرشیدہ دوم،(۴)علم الصیغہ، ششماہی کے بعد علی الترتیب نورالایضاح ،مرقات، القرأۃ الرشیدہ سوم، فصول اکبری، (خاصیات ابواب) ان کے علاوہ ایک گھنٹہ تجوید ۔ (یہ اختیاری مضمون تھا)
یہ سب کتابیں کتب خانہ سے حاصل کرلیں ، احیاء العلوم کا کتب خانہ خاصابڑا ہے ،اسے دیکھ کر طبیعت بہت للچائی میں نے ناظم کتب خانہ سے کتابوں کے لئے کہا تو انھوں نے فرصت نہ ہونے کا عذرکیا،اورکہاکہ جب پڑھائی شروع ہوجائے گی توکتابیں دی جائیں گی۔میں نے ایک نگاہ تمام الماریوں پر ڈال لی، رجسٹر بھی سب دیکھ ڈالا ،یہاں تو بڑی غذا ہے۔
اسباق کی ترتیب یوں تھی۔