سے اتنا نہیں ہوتاکہ پانی نکال کر دے دو ،وہ دونوں ایک ساتھ دوڑیں ، فوراً پانی نکالنے لگیں ، اب حافظ صاحب میری طرف متوجہ ہوئے اورڈانٹنا شروع کیا کہ تم سے خود نہیں ہوسکا کہ پانی نکال لیتے، ان کا ڈانٹنا بالکل بجا تھا میں بہت شرمندہ ہوا،لیکن اس کے باوجود کبھی کنویں کے قریب جانے کی ہمت نہیں ہوئی ،اورپھر عورتیں بھی ہوشیار ہوگئیں کہ ایک احمق کی خدمت کرنی ہے، سب کرکے دیدوتو یہ کھالے گا۔
دوسرا قصہ مولانا عبدالستار صاحب کے گھر پیش آیا ،ایک روز شام کے کھانے میں دال تھی اور قیمہ تھا، میں کھانے میں نمک کا بیش وکم ہونا نہیں پہچانتا تھا ،نمک زیادہ ہوتا تواحساس ہوجاتالیکن پھیکے کا ادراک نہیں ہوتاتھا دال آئی اورمیں کھانے لگا،کچھ عجیب سامزہ لگ رہاتھا،میں غور کرتارہاکہ کیابات ہے کہ اس کے مزہ میں بہت فرق ہے، بہت سوچنے کے بعد میں نے کہاہونہ ہونمک کم ہو ،میں نے بزرگ خاتون سے کہہ دیا، کھاکر چلا گیا ہوتا کچھ نہ بولے ہوتاتو کچھ عزت رہ جاتی ،مگر میرا بولنا تھا اورعزت کا جاناتھا ،میں نے کہا کہ شاید کھانے میں نمک کم ہے ،انھوں نے پکار کر اپنی بیٹی سے کہا ،جو عمر میں مجھ سے کچھ زیادہ تھی ،مگر بہت سیف زبان تھی ،اس سے کہا ذرا دیکھ تو دال میں نمک کم ہے اس نے چکھا اورصاعقہ بن کر میرے سر پر ٹوٹی کہ کتنا بیوقوف ہے یہ!اسے کچھ پتہ نہیں چلتا ، دال میں نمک ہے ہی نہیں اوریہ کہتاہے کہ کم ہے۔ بزرگ خاتون نے اس کو ڈانٹا، اورمیری دلجوئی کی، مگر اس دن میں نے بہت خفت محسوس کی میں برابر دعاکرتارہا کہ یااللہ مطبخ سے جو کچھ روکھاپھیکا کچا پکا مل جائے گا ، کھالوں گا ،کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاؤں گا، مگر اس سے نجات دیجئے، کھانا ان دونوں گھروں میں اچھا پکتاتھا،مگر میں برابر یہی دعاکرتاتھا دوسال تک یہ سلسلہ قائم رہا جب عربی چہارم میں آیا تو یہ سلسلہ موقوف ہوگیا،اورمدرسہ کے مطبخ میں میرا کھانا کردیاگیا ، اس دن جیسی خوشی ہوئی میں بیان نہیں کرسکتا،لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان دونوں گھروں میں میری دلداری کی حد کردی گئی،ان کے گھر کے بچے اتنے اہتمام سے نہیں کھلائے جاتے تھے ،جتنا اہتمام میرے لئے ہوتاتھا، اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطافرمائے۔اب