دووقت صورت سوال بن کر جانا پڑے گا، مگر ناظم صاحب کاحکم تھا، قاری محمد یٰسین صاحب اور مولانا عبدالستار صاحب کاکاروبار مشترک تھا، مگر رہائش اورکھانے پکانے کا انتظام الگ الگ تھا ، ان کے والد حافظ عبدالرشید صاحب بھی حیات تھے بہت بوڑھے ہوچکے تھے، میں دوپہر کے وقت قاری محمد یٰسین صاحب کے یہاں اور شام کو مولانا عبدالستار صاحب کے یہاں کھانا کھاتاتھا، دونوں جگہ بہت عزت وتکریم تھی، بڑی دلداری ودلنوازی تھی کوئی تکلف نہ تھا ، دونوں حضرات کی بیویاں ماں کی طرح بیٹھ کرکھلاتی تھیں ، بڑااُنس محسوس ہوتاتھا، مگر میں اپنی وحشی طبیعت سے مجبو رتھا ،میں جاتا ،چپکے سے کھاتا،نہ کچھ بولتا، نہ کسی طرف دیکھتا، نہ کھانے کے سلسلہ میں کچھ کہتا جو ملتا بس کھاکر چلاآتا، دونوں بوڑھی خاتون کبھی میرے پاس بیٹھ جاتیں اورمحبت کی باتیں کرتیں مگر میں گونگا بنا سنتا رہتا، زیادہ سے زیادہ ہاں نہیں میں جواب دیدیتا، گھر کے سب لوگ مجھ کو نرابیوقوف سمجھتے اورٹھیک سمجھتے تھے۔
کبھی کبھی میرابے ڈھنگا پن کھل جاتاتھا، حماقت ظاہر ہوجاتی تھی اس طرح کے دو واقعے اب تک ذہن میں محفوظ ہیں ۔قاری محمد یٰسین صاحب مرحوم کے گھر پانی کا نل نہیں تھا، کنواں تھا،مجھے کنویں سے پانی نکالنے کا کبھی اتفاق نہیں ہواتھا، کنویں میں جھانکنے سے بھی میں ڈرتاتھا، میں کھاناکھانے جاتاتو قاری صاحب کی اہلیہ کھانا نکال کر رکھتیں ،اکثر مجھی سے کہتیں کہ نکال لو اتنے میں تازہ پانی بھرکر میرے پاس رکھ دیتیں ،انھوں نے کبھی اس کی فرمائش نہیں کی کہ کنویں سے پانی نکال لو، انھیں موقع نہ ہوتاتو قاری صاحب کے بھتیجے فیض الحسن صاحب کی اہلیہ پانی نکال کر رکھ دیتیں ۔ ایک بارمیں گیا تو اتفاقاً دونوں کسی کام میں مشغول تھیں ،میں نے خود سے کھانانکال کر کھاناشروع کردیا، اورکنویں سے پانی نکالنا کسی کویاد نہ رہا،مجھے یاد تھا مگر میں کیسے کہتا،میں نے سوچا کہ کھاکر انگلی وغیرہ اچھی طرح صاف کرکے چل دوں گا، اورمدرسہ میں جاکر پانی پی لوں گا، مجھے کیامعلوم تھاکہ شامت آجائے گی بڑے میاں حافظ عبدالرشید صاحب عصا ٹیکتے ہوئے میری طرف نکل آئے، ایک نظر ڈالتے ہی پوچھا کہ پانی نہیں ہے ،میں خاموش رہا ،وہ بہوو ں پر خفا ہونے لگے، کہ تم لوگوں