ہوگی،میں گھر چلاآیا، اورسیدھا مولانا کے پاس پہونچا ،ا ن سے تمام روداد کہہ سنائی فرمانے لگے ہاں جی! شرح مأۃ عامل پڑھنی ضروری تھی؟ مگر وقت ختم ہوگیا تھا ،میں نے عرض کیا اب پڑھا دیجئے ، فرمایاچلو ایک ہفتہ سہی، انھوں نے اپنی کتاب نکالی اورمجھے دیدی پہلے بسم اللہ کی ترکیب بتائی، میری عقل چکراگئی، اس سے کیافائدہ ؟ مگر بہر حال یہ کام ضروری تھا، سب کتابیں اورسب مطالعے بالائے طاق رکھ کر ترکیب کو یاد کرنا شروع کیا،مگر ذرا بھی مناسبت نہ ہوئی ایک ہفتہ روتے ،گھبراتے گزرگیا ،بڑی مشکل سے ایک صفحہ کی ترکیب ہوسکی، میں مدرسہ چلاآیا ،شرح مأۃ عامل کایہ نسخہ بہت مفصل حاشیہ کا تھا اسے میں بہت غور سے دیکھتا تھا، فارسی زبان میں یہ حاشیہ تھا خدا خدا کرکے کچھ مناسبت پیداہوئی مدرسہ میں اسباق شروع ہوتے ہوتے کچھ دن گزرگئے،اب لڑکوں کی تعداد خاصی ہوچکی تھی ،نئے لڑکے داخل ہوچکے تھے، پرانے بھی آرہے تھے ۔
مبارک پورمیں باہر کے طلبہ کے کھانے کانظم دوطرح کا تھا ،بالغ طلبہ مدرسہ کے مطبخ سے کھاناپاتے تھے ،اورنابالغ لڑکے مبارک پور کے مخیر حضرات کے مہمان ہوتے،مبارکپور کے اصحاب خیر میں یہ بڑی خصوصیت تھی کہ وہ چھوٹے بچوں کومدرسہ سے مانگ لیتے اورجب تک وہ گھروں میں جانے کی صلاحیت رکھتے وہیں جاکر کھاتے یہ طالب علم ان کے گھر کا ایک فرد بن جاتا،بڑی عزت سے کھلاتے کھانے کی ہر چیز میں اس کا حصہ رکھا جا تا، بعض طلبہ جن سے لوگوں کا دل خوب کھل جاتا ،بالغ ہونے کے بعد بھی وہیں کھاتے اسی بنیاد پر کتنے رشتے وجود میں آگئے ،یہ بڑا بابرکت تعلق ہوتا تھا،اوربحمداللہ کبھی اس طریقۂ نظم میں کوئی ناگواربات سننے میں نہیں آئی۔میں بھی اس وقت نابالغ تھا مجھے حکم ہواکہ قاری محمد یٰسین صاحب اورمولانا عبدالستار صاحب کے گھر جاکر کھانا کھا یا کروں ،یہ دونوں حقیقی بھائی تھے، دور سے ہمارے خاندان کی ان کے یہاں رشتہ داری بھی تھی، مجھ پر یہ حکم بہت گراں گزرا ، دوسرے کے گھر جاکر روزانہ دونوں وقت کھاناکھانا میرے لئے زبردست مجاہد ہ تھا، میں تو اپنے گھر بھی جب والد صاحب نے دوسرانکاح کرلیا تھا، کھانا مانگتے ہوئے شرماتاتھا یہاں تو