میں جھومتا، راگ اورنغمہ کا یہ شوق مجھے بعد میں محرم کے ماتمی جلوسوں میں بھی لیجانے لگا،میرے گھرانے میں تعزیہ کی حیثیت وہ تھی کہ گھر کے بچوں کو اس کی صورت دیکھنی بھی ممنوع تھی۔ تعزیہ دیکھنا اورخنزیر دیکھنا یکساں سمجھاجاتاتھا ،ماتمی نوحوں کا سننا بدترین جرم تھا مگر اس میں نوحہ پڑھنے والے یہی موسیٰ وکریم ہوتے اور ان کی پارٹی ہوتی، دوتعزیے گاؤں میں نکلتے ،ایک کے ساتھ موسی کی پارٹی ہوتی ایک ساتھ کریم کی ! مجھے موسیٰ کی نغمہ سرائی زیادہ پسند تھی ،میں چوری سے رات میں شریک ہوجاتا،یہ پروگرام پوری رات کا ہوتا،ایک سال آدھی رات تک شریک رہا،دوسرے سال پوری رات گنوائی، اس دن صبح کو فجر کے بعد جب آخری نوحہ ہورہاتھا ،میں نے ایک ایسی چیز دیکھی کہ اس کے بعد ان ماتمی نوحوں سے بالکل بیزار ہوگیا اوراس کاتأثر اتنا شدید ہواکہ راگ اورنغمہ سے طبیعت اچٹ گئی،اب کوئی کتنا ہی اچھا گانے والا ہو، طبیعت کو جنبش نہیں ہوتی،،مجلس کی رعایت میں کبھی میں بھی واہ واہ، سبحان اللہ کہدوں ، یہ الگ بات ہے مگرنہ دل کو خواہش ہوتی اورنہ سن کر طبیعت پھڑکتی۔
وہ چیز عجیب تھی جس کامجھے پہلے کبھی تجربہ نہیں ہواتھا، موسیٰ کاایک چیلا بہت اچھا گاتاتھا۔وہی آخری نوحہ پڑھ رہاتھا اورا س کی پارٹی اسے دہرارہی تھی، میں نے دیکھا کہ اس کے منھ سے نہایت کثیف اورسیاہ دھواں نکل رہاہے ،جب وہ پڑھنے کیلئے منھ کھولتاتو دھویں کامرغولہ نکلتا اورفضا میں تحلیل ہوجاتا، میں نے اس کے ساتھیوں کودیکھاان کے منھ سے بھی ویسے ہی مرغولے نکل رہے ہیں ،یہ دیکھ کر مجھے بہت وحشت ہوئی طبیعت پر ہول طاری ہوگیا میں الٹے پاؤں وہاں سے بھاگا اورپھر کبھی نہیں گیا۔وﷲ الحمد
مشاعروں سے بھی دلچسپی تھی مگر جلسوں سے کم،میرے گاؤں بھیرہ میں ایک بزم انجمن رشیدیہ کے نام سے والد صاحب وغیرہ نے قائم کر رکھی تھی اس کی طرف سے مشاعرہ کا اہتمام ہوتا،اس میں قرب ونواح کے شعراء شریک ہوتے تھے، مشاعروں کی شرکت بس انھیں مشاعروں کی حد تک محدودتھی۔
٭٭٭٭٭