رہو ہم لوگ ایک بجے کے بعد آئیں گے تو ہم کو پارکردینا ،ملاح نے ہم بچوں کی رعایت کی وہیں ندی کے کنارے ایک چھپر میں پڑکروہ سوگیا۔ کمیل اشرف کی تقریر بشریت رسول کی نفی پر بڑی مرتب، مرصع اوردلآویز ہوئی ، اتنی مرتب اورلکش تقریرتھی کہ مجھے اول سے آخر تک وہ یاد ہوگئی، بولنے کا انداز میرے دل میں کھب گیا،میں ان کے بیان کردہ دلائل سے تومتأثر نہیں ہواکیوں کہ میرے پاس ان کے تمام دلائل کے جواب موجود تھے، مگر اسلوب وانداز نے مجھے مسحور کردیاتھا ،رات ہی میں واپس آگیا ،دروازہ کھٹکھٹانے کی ہمت نہیں ہورہی تھی، اس لئے ادھر ادھر باقی رات گزاردی اورجیسے ہی والدصاحب فجر کی نماز کے لئے اٹھ کر باہر نکلے، میں گھر میں گھس کر اس طرح سوگیا جیسے پوری رات بستر پر ہی رہاہوں ، والد صاحب نماز پڑھ کر آئے میری تونماز اس وقت تک معاف تھی ،جب سوکر اٹھا تو انھوں نے خفگی کے لہجے میں سوال کیاکہ رات کہاں تھے؟ جھوٹ کی عادت نہ تھی ،نہ اس کا یاراتھا ،سچ سچ بتادیا،وہ خفا ہونے لگے، میں نے سوچا کہ ان کی خفگی دورکرنے کی صورت بس یہی ہے کہ انھیں جلسہ کا حال اور اپنی یادداشت کا کمال بتادوں ،میں نے تقریرکی دلآویزی اور یادداشت کو بتایا ،تو فرمانے لگے اچھا سناؤ ،میں نے من وعن پوری تقریر دہرادی ،وہ دلچسپی سے سنتے رہے پھر میری خطا معاف ہوگئی۔
مجھے میلوں ٹھیلوں اورعوامی مجامع سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی ،مگر میں اس وقت کان کا مریض ہوگیا تھا ،یعنی قوالی ،راگ اورنغمہ کا شوق بہت ہوگیا تھا۔ ہمارے گاؤں میں دوقوال بہت مشہور ومعروف تھے اوردونوں واقعی بہت اچھا گاتے تھے ، ایک موسیٰ قوال اورایک عبدالکریم قوال۔ دونوں کی ایک ایک پارٹی تھی ،گاؤں کے پردھا ن محمد علی تھے، ان کی سرکاری عہدے داروں سے بالخصوص بی،ڈی، او سے بڑی دوستی تھی، یہ عہدے دار آتے تو قوالی کی محفل جمتی تھی، میں ان محفلوں میں بڑے انہماک سے شریک ہوتاتھا،مجھے مزامیر اورباجوں سے کوئی دلچسی نہیں تھی ۔ڈھولک کی تھاپ اورہرمونیم کی روں روں توں توں میں مجھے ذرا بھی لطف نہ آتا، بلکہ وحشت ہوتی،بس گانے والے کی خوش آوازی اسکی طرز ادا اس کے زیروبم پر