کہ دنیا میں سب سے غبی پہلوان ہوتاہے،اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی گردن پراتنے ہاتھ پڑے ہوتے ہیں ، اوراس پر مٹی لگاکر اتنا رگڑاجاتاہے کہ وہ تمام اعصابی ریشے جو سارے بدن کو دماغ سے جوڑتے ہیں بے حس اورمردہ ہوجاتے ہیں ،اس کی وجہ سے بڑی غباوت ان میں پیداہوجاتی ہے،میں یہ گفتگو سن رہاتھا اوراسی وقت دل میں عہد کررہا تھا کہ بس پہلوانی بس ، اب اکھاڑے میں نہیں جانا،جسم کی کمزوری گوارا،مگر غباوت برداشت نہیں ! چنانچہ پھر کبھی رخ نہیں کیا،حالانکہ ماموں کو توقعات تھیں ، انھوں نے کئی مرتبہ کہا بھی! اہیر کے اس لڑکے نے بھی باربار کہا،جس کو میری جوڑکا بنایاگیاتھا مگر میں ٹس سے مس نہ ہوا، اوراب دیکھتاہوں توماموں کی پہلوانی کو بڑھاپے نے دبالیاہے، اوراہیر کا لڑکا تو بس ہڈیوں کا ایک پنجرہے جس پر کھال چپکی ہوئی ہے، ہاں اس کی بیوی اس کا نعم البدل ہے،اس سے موٹی ،اس سے لمبی،دونوں اکثر ساتھ ہی رہتے ہیں ،بیوی آگے،شوہر پیچھے، ایسامعلوم ہوتاہے کہ گائے کے پیچھے مریل بچھڑاچل رہاہو، مجھے دیکھتاہے تو سلام کرتاہے میں پوچھتاہوں کہ یہ کیاحالت بنارکھی ہے ،توایک مردہ سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آتی ہے ،اوروہ بھی ناتمام! انقلاب ہیں زمانے کے۔
تعلیم کے اس وقفہ میں جلسوں اورمشاعروں کا مجھے شوق ہوگیاتھا ،جلسے بکثرت ہواکرتے تھے ، خودبھیرامیں اس کے علاوہ ولید پورمیں ،خیرآباد میں ، مبارک پور میں ،کم کوئی جلسہ مجھ سے چھوٹتا تھا۔ کبھی علمائے دیوبند کے جلسے ہوتے تو کبھی علمائے بریلی کے ،میں دونوں میں یکساں پابندی سے جاتا ۔ والد صاحب کی طرف سے بریلی کے جلسے میں جانے کی پابندی تھی، مگر میں چوری چھپے چلاجاتاتھا، انھیں معلوم ہوجاتامگر نظر انداز کردیتے ،ایک مرتبہ خیرآباد میں بریلویوں کا جلسہ تھا ،اس میں ایک نیانام دیکھا کمیل اشرف کچھوچھوی،میں اس میں جانے کیلئے بیتاب ہوگیا،والد صاحب سے اجازت ملنے کا کوئی سوال نہیں تھا ، جاڑے کا موسم تھا چند ساتھیوں کوتیار کیا بھیرا اورخیرآباد کے درمیان ٹونس ندی حائل ہے ، کشتی سے اسے پار کرناہوتاتھا،جاتے وقت ملاح سے بات کرلی تھی کہ تم آج یہیں ندی پر