پندرہ بیس دن میں پڑھادی، بس میری تعلیم کی کل کائنات یہی تھی،شرح مأۃ عامل کانام بھی اس وقت کان میں نہیں پڑاتھا، کبھی کسی کتاب میں اس کا نام ضرورآیاتھا ،مگر میں نے اس کا تلفظ غلط کیاتھا۔ شرح مات عامل،اس لئے میں نے کہا کہ اس کا نام تک نہ سناتھا۔
جن دنوں میں گلستاں ،بوستاں پڑھ رہاتھا ایک نیاشوق میرے اندر پیداہوا،یہ شوق پہلوانی کا تھا ۔
میرے ایک ماموں کشتی لڑاتے تھے ،ان کا اکھاڑہ تھا،اب مجھے یادنہیں کہ انھوں نے ترغیب دی، یاازخود میں نے اپنی جسم کی کمزوری کودورکرنے کیلئے اکھاڑے میں آنا جانا شروع کردیا، ماموں نے کسرت کرنے کاطریقہ سکھایا،کشتی کے ہاتھ بتائے،حیرت انگیز طور پرمیری طاقت میں اضافہ ہونے لگا، داؤ پیچ بھی خاصے معلوم ہوگئے ایک اہیر کا لڑکاجوتن وتوش میں مجھ سے ڈیڑھ گنا تھا ماموں نے اس کو میری جوڑ ی قراردیا ،ہم دونوں میں زورآمائی ہوتی تھی ،میں اپنے داؤ پیچ سے اسے پچھاڑ دیتاتھا،اوراس سے چوک جاتاتواپنی طاقت سے وہ مجھے دبا لیتا یہ سلسلہ کم وبیش دویاتین ماہ چلا کشتی سے خاصی دلچسپی پیداہوگئی، پہلوان بننے کاخواب توکیادیکھتا،مگر طاقت کے بڑھنے سے خوشی ہوئی تھی، یہ اکھاڑہ صرف شام کو بعدنمازمغرب جمتاتھا۔
ایک دن صبح غسل کئے بغیرمیں مولانا کے یہاں پڑھنے چلاگیا میری گردن پر پہلوانی کی مٹی لگی ہوئی تھی ،ہمارے گاؤں کے مشہور طبیب جو دیوبند کے فاضل بھی تھے اوراستاذ محترم سے ان کی گہری دوستی تھی، عموماً دونوں ایک دوسرے کے یہاں آیاجایا کرتے تھے روزانہ دونوں کی ملاقات ہونی ضروری تھی،سردی کے ایام تھے ،پوال بچھی ہوئی تھی اس کے گوشے میں بیٹھا میں سبق یادکررہاتھا ،اتنے میں مولانا اورحکیم بشیرالدین صاحب مرحوم باتیں کرتے ہوئے داخل ہوئے ، انھوں نے میری گردن پر مٹی لگی ہوئی دیکھی تو پوچھا کہ کشتی لڑتے ہو؟ میں نے عرض کیاجی ہاں ،مجھ سے تو انھوں نے کچھ نہیں کہا ، دونوں بزرگ دوسری طرف بیٹھ کر پہلوانی ہی کے موضوع پرباتیں کرنے لگے ،حکیم صاحب کہہ رہے تھے